بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشعال زینب نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

میں نے اپنی بیٹئ کا نام مشال  زینب رکھا ہے،اس نام کا اس کی شخصیت پر کیا اثر ہو گا ؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  انسان کی شخصیت پر اس کے نام کا بھی اثر ہوتا ہے؛ حدیث مبارکہ میں بچوں کا اچھا نام رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور ایسے نام جن کے معنی خراب یا بدشگونی کی طرف مشیر ہوں رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے، اس لیے اولاد کا اچھا اور بامعنیٰ نام رکھنا چاہیے، اور بہتر یہ ہے کہ بچوں کے نام انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام، صحابہ کرام  علیم الرضوان ،یا بزگوں  کے ناموں میں سے کسی  کےنام پر نام رکھا جائے، اور بچیوں کے امہات المؤمنین، دیگر صحابیات رضی اللہ عنہن، اور نیک عورتوں کے ناموں میں سے کوئی نام منتخب کر کے نام رکھا جائے۔

مشال کا درست تلفظ  مِشعال  'میم ' کے زیر کے ساتھ ہے ،اور مِشْعل اور مشعال  کا معنیٰ لغت میں ’’روشنی کا آلہ یا آگ لگانے کا آلہ‘‘ ہے،لہذا فی نفسہ تو مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، لیکن بہتر نہیں ہے، لہذامشعال زینب کے بجائےصرف زینب نام رکھا جائے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی اور  صحابیہ کا نام ہونے کی وجہ سے باعثِ برکت بھی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا إبراهيم بن موسى، حدثنا هشام، أن ابن جريج، أخبرهم قال: أخبرني عبد الحميد بن جبير بن شيبة، قال: جلست إلى سعيد بن المسيب، فحدثني: أن جده حزنا قدم على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ما اسمك» قال: اسمي حزن، قال: «بل أنت سهل» قال: ما أنا بمغير اسما سمانيه أبي قال ابن المسيب: «فما زالت فينا الحزونة بعد»".

(صحیح البخاری، باب تحويل الاسم إلي اسم أحسن منه، ج: 8، صفحه: 43، رقم الحدیث: 6193، ط: دار طوق النجاة)

"حدثنا النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا منصور بن المعتمر، عن هلال بن يساف، عن ربيع بن عميلة، عن سمرة بن جندب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاتسمينّ غلامك يسارًا، و لا رباحًا، و لا نجيحًا، ولا أفلح»، فإنك تقول: أثم هو؟ فيقول: «لا إنما هن أربع فلاتزيدن علي»."

)سنن أبي داود، باب في تغيير الاسم القبيح، ج:4، صفحه: 290، رقم الحدیث: 4958)، ط: المكتبة العصرية - بيروت)

 "المعجم الوسیط" میں ہے:

"المشعال: المشعالُ: اسم آلة الشعل والإيقاد والإضرام. والجمع: مشاعل".

(باب الشين، ج: ۱، ص:۴۸۵، ط: دار الدعوة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں