بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے پیسوں سے جھنڈیاں لگانے کا حکم


سوال

سوال  یہ ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں مسجد کے پیسوں سے مسجد میں جھنڈیاں لگانا کیسا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ  جو پیسے مسجد کے نام پر  دیے گیے ہوں ان پیسوں کو مسجد  کی ضرورت اور مسجد کے مصالح کے علاوہ دیگر جگہوں میں استعمال کرنا شرعا ناجائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مسجد کے پیسوں سے جھنڈیاں لگانا خواہ ربیع الاول کے موقع پر ہو یا کسی اور موقع پرہو مصالح مسجد میں سے نہیں ہے بلکہ  اس میں اسراف اور فضول خرچی  بھی ہے، اس لئے مسجد کی رقم  یااپنی ذاتی رقم   اس کام میں صرف کرناشرعاًجائز نہیں   ہے  ۔

چوں کہ  مسجد کے لیے دی گئی رقم متولی مسجد کے پاس امانت ہوتی ہے،جس کو مسجد اور مسجد کے مصالح میں خرچ کرنا متولی کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے اگر متولی مسجد مسجد کی رقم کو ایسی جگہوں میں خرچ کرے گا جو مصالح مسجد میں شامل نہ ہوں تو اتنی رقم کا ضامن ہوگا۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

’’يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ كلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لَا يحبُّ الْمُسْرِفِينَ‘‘ (الاعراف:۳۱)
ترجمہ: ’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

المدخل لابن الحاج میں ہے:

"بخلاف ‌ما ‌أحدثه ‌بعض ‌الناس اليوم من زيادة وقود القناديل الكثيرة الخارجة عن الحد المشروع لما فيها من إضاعة المال والسرف والخيلاء سيما إذا انضاف إلى ذلك ما يفعله بعضهم من وقود الشمع وما يركز فيه."

[فصل في وقود القناديل، ج:2، ص:302، ط:دار التراث]

فتاوی شامی میں ہے:

"‌مراعاة ‌غرض الواقفين واجبة والعرف يصلح مخصصا."

[كتاب الوقف، مطلب في المصادقة على النظر، ج:4، ص:445، ط:سعيد]

الدر مع الرد میں ہے:

"‌ثم ‌ما ‌هو ‌أقرب ‌لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر (قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة،كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح."

[كتاب الوقف ،مطلب في وقف المنقول قصدا، ج:4، ص:365، ط:سعيد]

فتح القدیر میں ہے:

"والأصل فيه أن الشرط إذا كان مفيدا والعمل به ممكنا وجب مراعاته والمخالفة فيه توجب الضمان."

[كتاب الوديعة، ج:8، ص:495، ط:دار الفكر]

خیر الفتاوی میں ہے:

"جو چيز مسجد كو مستحکم اور پختہ کرنیوالی ہو بحسب ضرورت اسراف سے بچتے ہوئے جائز ہے، زائد جھنڈیاں اورپھول پتیاں وغیرہ لگانا میلاد یا ختم قرآن پر جائز نہیں۔"

(احکام المساجد، ج:۶، ص:۵۳۰، ط:مکتبہ امدادیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں