بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کا امام کی اقتداء میں تشہد ترک کرنے سے نماز پر کراہتِ تحریمی کا حکم لگانے پر اشکال کا جواب


سوال

          آپ کی ویب سائٹ پر ایک فتوی دیکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر امام پہلے قعدے میں تشہد پڑھ کر تیسری رکعت کے ليے کھڑا ہوجائے  یا آخری قعدے میں سلام پھیر دے جب کہ مقتدی نے تشہد مکمل نہ کیا ہو تو مقتدی کو امام کی اتباع میں تیسری رکعت کے ليے کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے کے بجائے پہلے تشہد مکمل کرنا چاہيے اور تشہد مکمل کرنے کے بعد پھر تیسری رکعت کے ليے کھڑا ہونا یا سلام پھیرنا چاہیے،اور اگر کوئی مقتدی تشہد مکمل کيے بغیر امام کی اتباع میں تیسری رکعت یا بقیہ نماز کے ليے کھڑا ہوگیا یا سلام پھیر دیا تو اس کی نماز میں کرہتِ تحریمی آجائے گی، احقر کو کراہتِ تحریمی کا حکم لگائے جانے پر اشکال اور تردد ہے، کیوں کہ فقہی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر تشہد کا پڑھنا ’’اَولیٰ‘‘ ہے، تو ایک ایسا فعل جسے فقہاء نے صرف اولیٰ قرار دیا ہو اس کے ترک کرنے پر مکروہِ تحریمی کا حکم کیسے لگایا گیا ہے، نیز فقہی عبارات میں یہ صراحت بھی ملتی ہے : ’’وإن لم يفعل أجزأه ‘‘اور  ’’ولو لم يتم جاز‘‘ یعنی اگر کسی نے تشہد نہ بھی پڑھا تب بھی اس کی نماز ہوجائے گی، لہٰذا ان عبارات کی روشنی میں مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے ليے مکمل تشہد پڑھنے کو واجب قرار دینا اور  امام کی اتباع کی بنا پر تشہد کو ترک کردینے سے نماز پر کراہتِ تحریمی کا حکم لگانا قابلِ غور ہے۔براہِ کرم تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

فرض، واجب، سنت اور نفل نماز  کے قعدہ اولیٰ اور قعدہ ثانیہ میں جس طرح منفرد اور  امام کے ليے تشہد پڑھنا واجب ہے، اسی طرح  مقتدی (چاہے مدرک ہو یا مسبوق) کے ليے بھی قعده اولیٰ اور قعدہ ثانیہ، بلکہ ہر قعدہ میں  تشہد (التحیات) کا مکمل پڑھنا واجب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والتشهدان) ويسجد للسهو بترك بعضه ككله وكذا في كل قعدة في الأصح إذ قد يتكرر عشراً.

و في الرد :  (قوله: والتشهدان) أي تشهد القعدة الأولى وتشهد الأخيرة".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،واجبات الصلاة،1/ 466، ط:سعيد)

لہٰذا اگر کوئی شخص پہلے سے امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو یا قعدہ اولیٰ یا قعدہ اخیرہ میں آکر امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اس کے التحیات مکمل پڑھنے سے پہلے ہی امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے یا سلام پھیر دے تو دونوں صورتوں میں اس مقتدی کے ليے حکم یہ ہے کہ تیسری رکعت یا بقیہ نماز کے ليے کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے سے پہلے تشہد (التحیات) مکمل پڑھ لے، کیوں کہ نماز کے ہر قعدہ میں مقتدی کے ليے بھی تشہد کا مکمل پڑھنا واجب ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

قال في شرح المنية عن القنية: إن المقتدي لو نسي التشهد في القعدة الأولى فذكر بعد ما قام عليه أن يعود ويتشهد، بخلاف الإمام والمنفرد للزوم المتابعة، كمن أدرك الإمام في القعدة الأولى فقعد معه فقام الإمام قبل شروع المسبوق في التشهد فإنه يتشهد تبعا لتشهد إمامه فكذا هذا. اهـ.

(كتاب الصلاة، باب السجود السهو، 2/ 85، ط:سعيد)

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتدی امام کی اقتداء کی وجہ سے مکمل تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت یا بقیہ نماز کی تکمیل کے ليے کھڑا ہوجائے یا سلام پھیر دے تو اس کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ کیا اس کی نماز ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ اور اگر نماز ادا ہوگی تو کراہت کے ساتھ ادا ہوگی یا بلا کراہت ادا ہوگی؟ اس بارے میں فقہاء کرام سے دو قسم کے اقوال منقول ہیں:

ایک قول یہ ہے کہ امام کی اقتداء کی وجہ سے تشہد ترک کرنے والے مقتدی کی نماز بلا کراہت ادا ہوجائے گی اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس مقتدی کی نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔

چنانچہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے  حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں پہلا قول (نماز کا بلا کراہت ادا ہونا) اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر مقتدی تشہد پڑھے بغیر امام کی اتباع میں کھڑا ہوجائے یا سلام پھیر دے تو فقہاء کی عبارت"وإن لم يتمه جاز" کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوجائے گی، کیوں کہ تعارض کے وقت مقتدی کو اختیار ہوگا کہ وہ جس  واجب پر عمل کرنے کو ترجیح دینا چاہے اس کی مرضی ہے ،لہٰذا دو واجب افعال کے درمیان تعارض کی وجہ سے کسی ایک واجب کو چھوڑنے سے نماز میں  کراہت نہیں آئے گی، اگرچہ اولیٰ یہی ہے کہ دونوں پر عمل کرنے کی صورت اختیار کی جائے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا أدرك الإمام في التشهد وقام الإمام قبل أن يتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاة قبل أن يتم المقتدي التشهد فالمختار أن يتم التشهد. كذا في الغياثية وإن لم يتم أجزأه".

(كتاب الصلاة،الباب الخامس في الإمامة،الفصل السادس فيما يتابع الإمام وفيما لا يتابعه،1/ 90،ط: رشيدية)

حاشیہ طحطاوی علی الدرّ میں ہے:

"(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز.

و في الرد : (قوله: لوجوبه) علة غير منتجة، فان المتابعة واجبة أيضا.

(قوله: جاز)  اى من غير كراهة، لانه قد تعارض واجبان فيخير من غير كراهة، واستظهر الحلبي حمل الجواز على الصحة و اثبت كراهة التحريم، لان التشهد يفوت لا الى بدل، وهو بعيد".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة، 181/2، ط:دار الكتب العلمية)

جب کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے دوسرا قول (نماز کا کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہونا) اختیار کیا ہے، چنانچہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’رد المحتار علی الدر المختار‘‘ میں حلبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے کراہتِ تحریمی کا قول نقل کرنے کے بعد اس پر تفصیلی کلام کیا ہے اور اس تفصیلی کلام میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرح المنیۃ کے حوالہ سے اس مسئلہ کی یہ دلیل ذکر کی ہے کہ فرائض اور واجبات میں بلا تاخیر امام کی اتباع کرنا واجب ہے، اگر اس (امام کی اتباع والے) واجب کے مقابلہ میں دوسرا واجب (مثلا تشہد کو مکمل کرنا) آجائے تو اس دوسرے واجب کو ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس دوسرے واجب پر عمل کرنے کے بعد پھر امام کی اتباع کرلینی چاہیے، کیوں کہ دوسرے واجب (یعنی تشہد کو مکمل کرنے) پر عمل کرنے سے امام کی اتباع مکمل طور سے فوت نہیں ہوگی، جب کہ تشہد کو چھوڑ کر امام کی اتباع کرنے سے دوسرا واجب مکمل طور سے فوت ہوجائے گا، پہلی صورت (یعنی تشہد کو مکمل کرنے) میں صرف ایک واجب پر عمل کرنے میں تاخیر لازم آرہی ہے، جب کہ دوسری صورت (یعنی تشہد کو مکمل کیے بغیر امام کی اتباع کرنے) میں ایک واجب کا سرے سے ترک کرنا لازم آرہا ہے، لہٰذا ایک واجب (امام کی اتباع) پر عمل میں تاخیر کرکے دونوں واجب افعال (تشہد کی تکمیل اور امام کی اتباع) ادا کرنا  کسی ایک واجب کو بالکلیہ ترک کردینے سےزیادہ اولیٰ ہے۔

شرح المنیہ سے مذکورہ دلیل ذکر کرنے کے بعد علامہ شامی رحمہ اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس دلیل کے ظاہر سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے لئے تشہد کو مکمل کرنا صرف اولیٰ ہوگا، واجب نہیں ہوگا، لیکن اس دلیل پر ایک اشکال یہ ہوسکتا ہے کہ امام کی اتباع کو واجب کہنے سے مراد ایسی اتباع ہے جو بلا تاخیر ہو، جب کہ تشہد کو مکمل کرنے کی صورت میں ’’بلا تاخیر اتباع‘‘ کا بالکلیہ فوت اور ترک ہونا لازم آرہا ہے، آگے علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس ليے مناسب یہ ہے کہ اس مسئلہ پر مذکورہ دلیل دینے کے بجائے یہ دلیل دی جائے کہ امام کی بلا تاخیر اتباع اس وقت واجب ہوگی، جب اس کے مقابلہ میں دوسرا واجب نہ ہو، ورنہ مقابلہ میں دوسرا واجب آنے کی صورت میں بلا تاخیر اتباع واجب نہیں ہوگی، جیسا کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے، لیکن دوسرے واجب (خطبہ کا سننا) کے مقابلہ میں آنے کی صورت میں سلام کے جواب کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے، لہٰذا تشہد کی تکمیل والا واجب مقابلہ میں آنے کی صورت میں امام کی بلا تاخیر اتباع کا وجوب ساقط ہوجائے گا،  اور مذکورہ دلیل کی رو سے مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے ليے تشہد کو مکمل کرنا صرف اولیٰ نہیں بلکہ  واجب ہوگا۔

اس کے بعد علامہ شامی رحمہ اللہ نے ایک اشکال( کہ امام کی بلا تاخیر اتباع کے وجوب کو مشروط یا مؤقت قرار دینے کے بجائے تشہد کی تکمیل کے وجوب کو کیوں مشروط یا مؤقت قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؟)کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ فقہاء کرام کا یہ قول"فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه"سے معلوم ہوتا ہے کہ تشہد کی تکمیل اور امام کی بلا تاخیر اتباع کے درمیان تعارض کے وقت تشہد کی تکمیل کا وجوب باقی رہتا ہے اور بلا تاخیر اتباع کا وجوب مقتدی سے ساقط ہوجاتا ہے۔

یہ تفصیلی بحث ذکر کرنے کے بعد علامہ شامی رحمہ اللہ نے آخر میں فیصلہ کن انداز میں ساری بحث کا خلاصہ اور اپنی حتمی رائے ان الفاظ میں ذکر کی ہےکہ "وحينئذ فقولهم ولو لم يتم جاز معناه صح مع الكراهة التحريمية، ويدل عليه أيضا تعليلهم بوجوب التشهد إذ لو كانت المتابعة واجبة أيضا لم يصح التعليل كما قدمناه فتدبر". یعنی جب تعارض کے وقت اتباع کا وجوب ساقط اور تشہد کو مکمل کرنے کا وجوب ثابت ہے تو فقہاء کی اس طرح کی عبارات "وإن لم يفعل أجزأه"اور "ولو لم يتم جاز"کا مطلب یہ ہوگا کہ مقتدی اگر تشہد مکمل کیے بغیر امام کی اقتداء میں کھڑا ہوگیا یا سلام پھیر دیا تو اس کی نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوجائے گی،یعنی واجب چھوٹنے کی وجہ سے کراہتِ تحریمی تو بہرحال آئے گی لیکن امام کی اقتداء میں ہونے کی وجہ سے نماز صحیح ہوجائے گی، سجدہ سہو یا اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه لأنه سنة والناس عنه غافلون.

و في الرد : (قوله: فإنه لا يتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد (قوله: لوجوبه) أي لوجوب التشهد كما في الخانية وغيرها، ومقتضاه سقوط وجوب المتابعة كما سنذكره وإلا لم ينتج المطلوب فافهم (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح، ونازعه ط والرحمتي، وهو مفاد ما في شرح المنية حيث قال: والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابعه لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية، بخلاف ما إذا عارضتها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب. اهـ.

أقول: ظاهره أن إتمام التشهد أولى لا واجب، لكن لقائل أن يقول إن المتابعة الواجبة هنا معناها عدم التأخير فيلزم من إتمام التشهد تركها بالكلية، فينبغي التعليل بأن المتابعة المذكورة إنما تجب إذا لم يعارضها واجب، كما أن رد السلام واجب، ويسقط إذا عارضه وجوب استماع الخطبة، ومقتضى هذا أنه يجب إتمام التشهد، لكن قد يدعي عكس التعليل فيقال إتمام التشهد واجب إذا لم يعارضه وجوب المتابعة نعم قولهم لا يتابعه يدل على بقاء وجوب الإتمام وسقوط المتابعة لتأكد ما شرع فيه على ما يعرض بعده، وكذا ما قدمناه عن الظهيرية، وحينئذ فقولهم ولو لم يتم جاز معناه صح مع الكراهة التحريمية، ويدل عليه أيضا تعليلهم بوجوب التشهد إذ لو كانت المتابعة واجبة أيضا لم يصح التعليل كما قدمناه فتدبر".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها،1/ 496، ط:سعيد)

خلاصہ کلام یہ ہوا  کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے لیے تیسری رکعت یا بقیہ نماز کے لیے کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے سے پہلے تشہد کے مکمل کرنے کو دلائل کی روشنی میں ’’اولیٰ‘‘ کے بجائے ’’واجب‘‘ قرار دیا ہے اور تشہد ترک کر کے امام کی اتباع میں کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے والے کی نماز پر کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہونے کا حکم لگایا ہے، حتیٰ کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے یہاں تک صراحت کی ہے کہ اگر تشہد مکمل کرنے کی صورت میں امام کے ساتھ تیسری رکعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تب بھی مقتدی تشہد کو ترک نہیں کرے گا، بلکہ  تشہد مکمل پڑھنے کے بعد ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگا چاہے امام کے ساتھ تیسری رکعت کا رکوع بھی فوت ہوجائے، کیوں کہ مقتدی پر قعدہ میں بیٹھتے ہی تشہد کا پڑھنا واجب ہوگیا ہے، جب کہ امام کی متابعت میں امام کے ساتھ قیام اور رکوع کرنے کا وجوب فی الحال ’’اتمامِ تشہد‘‘ کے واجب ہونے کی وجہ ساقط ہوگیا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں مقتدی تھوڑی تیز رفتاری سے تشہد مکمل کر کے امام سے قیام یا رکوع میں ملنے کی کوشش کرے، لیکن اگر امام کے ساتھ قیام یا رکوع میں نہ مل سکا تو  خود ہی قیام اور رکوع کر کے جس رکن میں ممکن ہو امام سے مل جائے،بلکہ خود علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی دوسری کتاب’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح‘‘میں تشہد مکمل کرنے کو واجب قرار دیا ہے اور  فتاویٰ فضلی اور تجنیس کے حوالے سے یہی بات ذکر کی ہے کہ اگر امام کے ساتھ تیسری رکعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو تب بھی مقتدی تشہد کو مکمل کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ركع الإمام قبل فراغ المقتدي) من القنوت قطعه و (تابعه) ولو لم يقرأ منه شيئا تركه إن خاف فوت الركوع معه بخلاف التشهد لأن المخالفة فيما هو من الأركان أو الشرائط مفسدة لا في غيرها درر.

 (قوله: قطعه وتابعه) لأن المراد بالقنوت هنا الدعاء الصادق على القليل والكثير، وما أتى به منه كاف في سقوط الواجب، وتكميله مندوب والمتابعة واجبة فيترك المندوب للواجب رحمتي.

(قوله: ولو لم يقرأ إلخ) أي لو ركع الإمام ولم يقرأ المقتدي شيئا من القنوت إن خاف فوت الركوع يركع وإلا يقنت ثم يركع خانية وغيرها، وهل المراد ما يسمى قنوتا أو خصوص الدعاء؟ المشهور والظاهر الأول.

(قوله: بخلاف التشهد) أي فإن الإمام لو سلم أو قام للثالثة قبل إتمام المؤتم التشهد فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه كما قدمه في فصل الشروع في الصلاة (قوله لأن المخالفة إلخ) هذا التعليل عليل لاقتضائه فرضية المتابعة المذكورة وقدمنا عن شرح المنية أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة ما لم يعارضها واجب، فلا يفوته بل يأتي به ثم يتابعه، بخلاف ما إذا عارضها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب، وهذا موافق لما قدمناه آنفا، وحينئذ فوجه الفرق بين القنوت والتشهد هو أن قراءة المقتدي القنوت سنة كما قدمنا التصريح به عن المحيط، والمتابعة في الركوع واجبة؛ فإذا خاف فوتها يترك السنة للواجب. وأما التشهد فإتمامه واجب لأن بعض التشهد ليس بتشهد فيتمه وإن فاتت المتابعة في القيام أو السلام لأنه عارضها واجب تأكد بالتلبس به قبلها فلا يفوته لأجلها وإن كانت واجبة.  وقد صرح في الظهيرية بأن المقتدي يتم التشهد إذا قام الإمام إلى الثالثة وإن خاف أن تفوته معه، وإذا قلنا إن قراءة القنوت للمقتدي واجبة، فإن كان قرأ بعضه حصل المقصود به لأن بعض القنوت قنوت، وإلا فلم يتأكد وتترجح المتابعة في الركوع للاختلاف في أن المقتدي هل يقرأ القنوت أم يسكت؟ فافهم".

(كتاب الصلاة،باب الوتر والنوافل،2/ 10، ط:سعيد)

حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:

"لو سلم الإمام أو تكلم قبل فراغ المقتدي من قراءة التشهد يتمه لأنه من الواجبات ثم يسلم لبقاء حرمة الصلاة وأمكن الجمع بالإتيان بهما وإن بقيت الصلوات والدعوات يتركها ويسلم مع الإمام لأن ترك السنة دون ترك الواجب ....... ولو قام الإمام إلى الثالثة ولم يتم المقتدي التشهد أتمه وإن لم يتمه جاز وفي فتاوى الفضلى والتجنيس يتمه ولا يتبع الإمام وإن خاف فوت الركوع لأن قراءة بعض التشهد لم تعرف قربة والركوع لا يفوته في الحقيقة لأنه يدرك فكان خلف الإمام ومعارضة واجب آخر لا يمنع الإتيان بما كان فيه من واجب غيره لإتيانه به بعده فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية بخلاف ما إذا عارضته سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب.

قوله: "ولو قام الإمام إلى الثالثة" لما ذكر السلام في الأخيرة ذكر القيام في العقدة الأولى وكان الأولى عكس ما ذكره قوله: "وإن لم يتمه جاز" لتعارض واجبين فمتخير بينهما وهذا هو المشهور في المذهب قوله: "يتمه" أي وجوبا قوله: "لا يفوته في الحقيقة" أي وإنما يفوته مقارنة الإمام فيه قوله: "ومعارضة واجب آخر" وهو المقارنة في المتابعة قوله: "لاتيانه به" أي بالواجب الآخر قوله: "بعده" أي بعد فعل ما هو فيه من الواجب". 

(كتاب الصلاة،‌‌فصل: فيما يفعله المقتدي بعد فراغ إمامه من واجب وغيره، ص: 309، ط:دار الكتب العلمية)

حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:

"و" يجب "القعود الأول" في الصحيح ولو كان حكما وهو قعود المسبوق فيما يقضيه. ولو جلس الأول تبعا للإمام لمواظبة النبي صلى الله عليه وسلم عليه وسجوده للسهو لما تركه وقام ساهيا "و" يجب "قراءة التشهد فيه" أي في الأول وقوله "في الصحيح" متعلق بكل من القعود وتشهده وهو احتراز عن القول بسنتهما أو سنية التشهد وحده للمواظبة "و" يجب "قراءته" أي التشهد "في الجلوس الأخير" أيضا للمواظبة

قوله: "ولو كان حكما" فيه إشارة إلى انه أراد بالأول ما ليس بآخر فالمسبوق بثلاث في الرباعية ثلاث قعدات والواجب منها ما عدا الأخير قاله السيد وفيه أن الأول فرض بمقتضى المتابعة وقول الشرح وهو قعود المسبوق فيما يقضيه يفيد أن الواجب ما انفرد المسبوق بقضائه فقط فليتأمل قوله: "ويجب قراءة التشهد" فيسجد للسهو بترك بعضه ككله كما في الدر قوله: "أي في الأول" المراد به كما سبق ما عدا الأخير على ما فيه فإنه قد يتكرر مرارا قوله: "للمواظبة" علة لقوله ويجب قراءة التشهد".

(كتاب الصلاة،‌‌فصل في بيان واجب الصلاة،ص:250، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة، فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابع، كما لو قام الإمام قبل أن يتم المقتدي التشهد فإنه يتمه ثم يقوم لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية، وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية، بخلاف ما إذا عارضها سنة كما لو رفع الإمام قبل تسبيح المقتدي ثلاثا فالأصح أنه يتابعه لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب اهـملخصا................وكذا لايتابعه في ترك الواجب القولي الذي لايلزم من فعله المخالفة في واجب فعلي كالتشهد والسلام وتكبير التشريق، بخلاف القنوت وتكبيرات العيدين إذ يلزم من فعلهما المخالفة في الفعل وهو القيام مع ركوع الإمام. اهـ".

(كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،واجبات الصلاة،1/ 470، ط:سعيد)

مندرجہ بالا تمام فقہی عبارات کی رو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرات فقہاء کرام کا تین باتوں پر تو اتفاق ہے:

1.       مقتدی پر بھی منفرد اور امام کی طرح تشہد پڑھنا واجب ہے۔

2.      مقتدی (چاہے مدرک ہو یا مسبوق) کو تشہد مکمل کیے بغیر امام کی اقتداء میں تیسری رکعت یا بقیہ نماز کے لئے کھڑا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی سلام پھیرنا چاہیے۔

3.     اگر مقتدی امام کی متابعت میں تشہد مکمل کیے بغیر کھڑا ہوجائے یا سلام پھیردے تو اس کی نماز  ادا ہوجاتی ہے، اس پر نماز کا اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

البتہ اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ اگر مقتدی امام کی متابعت میں تشہد مکمل کیے بغیر کھڑا ہوجائے یا سلام پھیر دے تو اس کی نماز بلا کراہت ادا ہوگی یا کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی، علامہ طحطاوی اور رحمتی رحمہما اللہ نے بلا کراہت ادائیگی والے قول کو ترجیح دی ہے، جب کہ حلبی رحمہ اللہ نے کراہت تحریمی کے ساتھ ادائیگی والا قول اختیار کیا ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ نے دونوں قول اور طرفین کے دلائل ذکر کرنے کے بعد کراہتِ تحریمی والے قول کو دلائل کے ساتھ راجح قرار دیا ہے اور فقہاء متقدمین کی جن عبارات سے مذکورہ مسئلہ میں بلا کراہت ادائیگی کا شبہ ہورہا تھا اس کا صحیح مطلب بھی بیان کیا ہے کہ متقدمین فقہاء کرام کی ان عبارات سے صرف نماز کی صحت اور عدم فساد کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، جب کہ دیگر دلائل سے کراہتِ تحریمی ثابت ہے۔بر صغیر پاک و ہند کے اکثر اکابر اہل افتاء نے بھی علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق کو راجح قرار دیتے ہوئے مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے لئے امام کی متابعت میں کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے سے پہلے تشہد کو مکمل کرنے کو لازم اور واجب قرار دیا ہے اور تشہد ترک کرنے پر کراہت کا قول اختیار کیا ہے، چنانچہ امداد الاحکام میں بھی تشہد کی تکمیل کے لزوم کو بیان کرنے کے بعد فقہاء کرام کی عبارت’’اجزأہ‘‘  کا مطلب یہی بیان کیا گیا ہے کہ نماز کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔

امداد الاحکاممیں ہے:

"سوال: مسبوق کے اقتداء کر کے بیٹھتے ہی امام نے سلام پھیر دیا، اب وہ مسبوق تشہد پڑھ کے کھڑا ہوگا یا کیا کرے گا؟

الجواب: مسبوق کے شامل ہوتے ہی اگر امام سلام پھیر دے تب بھی مسبوق کو تشہد پوری کر کے ہی کھڑا ہونا چاہیئے،كما في الدر : ’’(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز‘‘ وقال الشامي: ’’ أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد ۔۔۔۔ (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح، ونازعه ط والرحمتي الخ ‘‘۵۱۷).

قلت: وكذا قوله اجزأه يحمل على الاجزاء مع الكراهةكما لا يخفي، والله اعلم،كتبه: الاحقر عبد الكريم ۔  الجواب صحيح: ظفر احمد عفي عنه".

(کتاب الصلاۃ، فصل فی المسبوق و اللاحق، 551/1، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

احسن الفتاویٰمیں ہے :

"سوال:         کیا مسبوق پر بھی امام کی متابعت میں تشہد پڑھنا واجب ہے؟ اگر نہیں پڑھا تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ گناہ ہوگا یا نہیں ؟

جواب:        امام کی متابعت میں مسبوق پر بھی تشہد واجب ہے، چھوڑنے سے گناہ ہوگا، مگر نماز ہوجائے گی۔لما في واجبات الشامية:والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة (رد المحتار،ص۴۳۹،ج۱) وفي العلائية:’’(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز‘‘ و في الشامية:’’وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير الخ (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح الخ‘‘(رد المحتار،ص۴۶۳ ج۱) و في سجود السهو من الشامية عن شرح المنية عن القنية من أدرك الإمام في القعدة الأولى فقعد معه فقام الإمام قبل شروع المسبوق في التشهد فإنه يتشهد تبعا لتشهد إمامه فكذا هذا. اهـ.(رد المحتار،ص۶۹۸ ج۱)۔ فقط واللہ اعلم۔

سوال:          اگر کسی شخص کے بیٹھتے ہی امام قعدہ اولیٰ سے کھڑا ہوگیا اور یہ شخص التحیات نہ پڑھ سکا تو شرعا اس کا کیا حکم ہے؟ بينوا توجروا۔

جواب:         اس صورت میں مسبوق تشہد پورا کر کے اٹھے، بدون تشہد پورا کئے امام کا اتباع مکروہ تحریمی ہے، مگر نماز ہوجائے گی، آخری قعدہ میں شریک ہونے والے کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کا تشہد پورا ہونے سے پہلے امام نے سلام پھیر دیا تو تشہد پورا کر کے کھڑا ہو،قال فى الدر: ’’(بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز‘‘ وفي الشامية: ’’(قوله: فإنه لا يتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد ۔۔۔۔ (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح‘‘۔ (رد المحتار) فقط والله اعلم".

(کتاب الصلاۃ، باب المسبوق و اللاحق،376/3، ط:سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:         مسبوق قعدہ اخیرہ میں ملا تو امام کے ساتھ تشہد پڑھنا واجب ہے یا نہیں؟

جواب:         مسبوق کو بھی امام کے قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنا واجب ہے۔

سوال:         جو شخص آخری قعدہ میں شریک ہو ، اس کو بھی التحیات پوری پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب:        وہ بھی التحیات پوری کر کے ہی نماز پوری کرے۔

سوال:         کسے گردرجماعت داخل شدہ تشہد خواندن آغاز کند، و در آن وقت امام بسلام از نماز فارغ شود، آنکس تشہد اول خواندہ قیام کند یا نہ ؟

جواب:        تشہد اول خواندہ قیام کند، کذا فی رد المحتار ۔

(ترجمہ سوال:کسی شخص نے جماعت میں داخل ہوکر تشہد پڑھنا شروع کیا اور اسی وقت امام سلام کے ذریعہ نماز سے فارغ ہوجائے وہ شخص تشہد پڑھ کر کھڑا ہو یا نہیں ؟)

(ترجمہ جواب: تشہد پڑھ کر کھڑا ہو۔)

سوال:         مسبوق دوسری رکعت میں ہو، اب سوال یہ ہے کہ تشہد اس پر واجب ہے یا سنت یا مستحب ہے؟ پھر چوتھی رکعت (اس کی تیسری) میں پڑھنا کیسا ہے؟ نیز جب آخری رکعت میں مسبوق ہو تب بھی یہی سوال ہے۔ درجہ کا تعین حوالہ سے کریں، نوازش ہوگی۔

جواب:        مسبوق پر امام کے تابع ہوکر تشہد پڑھنا واجب ہے کیونکہ وہ بھی مقتدی ہے، سلام امام کے بعد جب اپنی بقیہ نماز پوری کرے تو ہر قعدہ میں تشہد پڑھنا واجب ہوگا۔’’ لو سلم الإمام أو تكلم قبل فراغ المقتدي من قراءة التشهد يتمه لأنه من الواجبات اھ‘‘ مراقی الفلاح،ص:۱۸۵۔   و يجب قراءة التشهد فيه" أي في الأول وقوله "في الصحيح" متعلق بكل من القعود وتشهده وهو احتراز عن القول بسنتهما أو سنية التشهد وحده للمواظبة  و يجب قراءته أي التشهد في الجلوس الأخير أيضا ‘‘ و في حاشية الطحطاوي: ’’فالمسبوق بثلاث في الرباعية ثلاث قعدات ۔۔۔۔۔ (قوله: ويجب قراءة ) فيسجد للسهو بترك بعضه ككله،اھ‘‘مراقی الفلاح و الطحطاوی،ص:۱۴۹،ص:۱۵۰۔فقط واللہ اعلم".

(کتاب الصلاۃ، باب المسبوق و اللاحق، 558/6۔561، ط:سعید)

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘میں ہے :

سوال:          اگر امام سلام پھیردے اور نمازی نے ابھی تک التحیات مکمل نہ پڑھی ہو تو کیا امام کے ساتھ ہی سلام پھیردے یا پوری دُعا پڑھ کر سلام پھیرے۔

جواب:         تشہد (یعنی التحیات ”عبدہ و رسولہ“ تک) دونوں قعدوں میں واجب ہے، اگر پہلے قعدہ میں مقتدی کا تشہد پورا نہیں ہوا تھا کہ امام تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوگیا تو مقتدی امام کی پیروی نہ کرے، بلکہ اپنا تشہد پورا کرکے کھڑا ہو (”عبدہ و رسولہ“ تک)، اسی طرح اگر آخری قعدہ میں مقتدی کا تشہد پورا نہیں ہوا تھا کہ امام نے سلام پھیردیا تو مقتدی امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے، بلکہ اپنا تشہد پورا کرکے سلام پھیرے۔

اگر کوئی شخص پہلے قعدہ میں آکر جماعت میں شریک ہوا اور اس نے التحیات شروع کی تھی کہ امام کھڑا ہوگیا، تو یہ شخص امام کے ساتھ کھڑا نہ ہو بلکہ التحیات ․․․”عبدہ و رسولہ“ تک․․․ پڑھ کر کھڑا ہو، اگر کوئی شخص آخری قعدہ میں شریک ہو، ابھی التحیات پوری نہیں کی تھی کہ امام نے سلام پھیر دیا تو یہ شخص فوراً کھڑا نہ ہوجائے بلکہ التحیات ․․․”عبدہ و رسولہ“ تک ․․․ پوری کرکے کھڑا ہو".

(نماز ادا کرنے کا طریقہ، 3/ 370، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فتاویٰ حقانیہمیں ہے:

"سوال:         اگر کوئی شخص ظہر کی نماز میں امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شامل ہوجائے اور امام جب دوسری رکعت پر بیٹھ جائے تو اس مسبوق پر بھی تشہد پڑھنا لازم ہے یا نہیں؟ بعض متون اور حواشی میں لکھا ہے کہ مسبوق پر یہ ضروری نہیں۔

جواب:         مسبوق پر بھی تشہد پڑھنا واجب ہے۔

سوال:         اگر مسبوق امام کے ساتھ قعدہ اولیٰ میں شرکت کرے اور مسبوق کے بیٹھتے ہی امام کھڑا ہوجائے تو کیا ایسی صورت میں امام کی متابعت ضروری ہے یا مسبوق تشہد مکمل کرنے کے بعد کھڑا ہوگا؟

جواب:        ایسی صورت میں تشہد مکمل کرنے کے بغیر بھی اگر مسبوق امام کی متابعت کی وجہ سے کھڑا ہوجائے تو نماز مع الکراہت ہوجاتی ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ تشہد پوری پڑھ کر پھر اٹھے کیونکہ  قعدہ میں تشہد پڑھنا واجب ہے، لہٰذا ایک واجب کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک نہیں کرنا چاہیئے، یہاں تک کہ مدرک بھی تشہد پورا کرنے کے بغیر نہیں اٹھے گا بلکہ تشہد مکمل کرے پھر اٹھ کر امام کی متابعت کرے، تاکہ دونوں واجب کی رعایت ہو".

(کتاب الصلاۃ، باب المسبوق و اللاحق، 181/3۔182، ط:مکتبہ سیّد احمد شہید)

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:

سوال:          کیا فرماتے ہیں علماء دین شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ مقتدی نے قعدہ اولیٰ کو تشہد تک پورا نہ کیا ہو کہ امام قیام کیلئے کھڑا ہو ا،اب مقتدی جس پر امام کی اقتداء واجب ہے کھڑا ہو جائے یا تشہد پورا کرے جبکہ بقدر تشہد بیٹھنا واجب ہے، اب مقتدی کیا کرے؟ بینواتوجروا

جواب:          اس شخص کیلئے ضروری ہے کہ تشہد پورا کرنے کے بعد قیام کرے،فی الهندیة ص۹۴جلد۱، الامام اذا تشهد وقام من القعدۃ الاولیٰ الی الثالثة فنسی بعض من خلفہ التشهد حتی قاموا جمیعاً، فعلی من لم یتشهد ان یعود ویتشهد ثم یتبع امامہ وان خاف ان تفوتہ الرکعة ، انتہی. فافهم وتدبر وصرح بہ فی ردالمحتار ص۴۳۹جلد۱)۔ وھوالموفق".

 (کتاب الصلاۃ، باب المدرک و المسبوق و اللاحق،469/2 )

فتاویٰ فریدیہ میں ہے:

"سوال:         کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص رباعی نماز میں امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شامل ہوا، اب جب امام دوسری رکعت پر بیٹھ گیا تو مسبوق پر یہی تشہد پڑھنا واجب ہے یانہیں؟ بینواتوجروا

جواب:         مسبوق پر یہی تشہد پڑھنا واجب ہے،فی ردالمحتار ص۵۵۱جلد۱کمن ادرک الامام فی القعدۃ الاولیٰ فقعد معہ فقام الامام قبل شروع المسبوق فی التشہد فانہ یتشہد تبعاً لتشہد امامہ۔ وھوالموفق".

  (کتاب الصلاۃ، باب المدرک و المسبوق و اللاحق، 477/2 )

لہٰذا مندرجہ بالا فقہی دلائل کی رو سے  مذکورہ مسئلہ میں مقتدی کے لیے مکمل تشہد پڑھنے کو واجب قرار دینا اور  امام کی متابعت میں کھڑے ہونے یا سلام پھیرنے کی وجہ سے تشہد کو ترک کردینے سے نماز پر کراہت تحریمی کے ساتھ ادائیگی کا حکم لگانا بالکل درست ہے، کیوں کہ امام اور منفرد کی طرح مقتدی کا بھی کسی واجب کو ترک کرنا کراہتِ تحریمی کا باعث ہے، اگرچہ امام کی متابعت کی وجہ سے نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں