بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق مقتدی کا غلطی سے امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی صورت میں سجدہ سہو کا وجوب سلام کے الفاظ کی ادائیگی سے ہوگا، صرف چہرہ پھیرنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔


سوال

اگر کوئی مقتدی مسبوق ہو اور جب امام سلام پھیردے تو وہ مسبوق بھولے سے ” السلام علیکم“ تو کہہ دے لیکن چہرہ نہ پھیرے تو کیا اس مسبوق مقتدی پر سجدہ سہو لازم ہوگا؟ یا صرف چہرہ پھیر دے اور ”السلام علیکم“ نہ کہے تو سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟ جس صورت میں سجدہ سہو لازم ہوتا ہو اس صورت میں اگر اس مسبوق نے سجدہ سہو نہیں کیا تو کیا اس کی نماز ہوگئی یا نہیں؟

جواب

مسبوق مقتدی کو امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرنا چاہیے، البتہ مسبوق کے بھول سے امام کے ساتھ پھیرنے کی صورت میں سجدہ سہو لازم ہونے کا تعلق چہرہ پھیرنے سے نہیں ہوگا، بلکہ سجدہ سہو کے لازم ہونے کا تعلق سلام کے الفاظ کی ادائیگی سے ہوگا، لہٰذا اگر کوئی مسبوق امام کے سلام پھیرنے کے وقت صرف چہرہ پھیر دے، سلام کے الفاظ منہ سے نہ کہے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، لیکن اگر مسبوق بھول کر امام کے ساتھ ایک طرف سلام پھیر تے وقت سلام کے الفاظ زبان سے کہہ دے اور پھر فوراً  یاد آجانے پر کھڑے ہوکر اپنی بقیہ رکعت پوری کرلے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے سلام کے الفاظ امام کے ساتھ متصلاً کہے تھے، یعنی اس کے سلام کہنے کے الفاظ امام کے بالکل ساتھ ساتھ ادا ہوئے تھے، الفاظ کی ادائیگی میں امام کے مقابلے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی (اگرچہ عام طور سے ایسا ہونا بہت مشکل یا شاذ و نادر ہے) تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، خواہ چہرہ پھیرہ ہو یا نہ پھیرہ ہو۔

لیکن اگر مسبوق نے  سلام کے الفاظ امام کے بالکل ساتھ متصلاً نہ کہے ہوں، بلکہ اس کے لفظ”السلام“ کہنے میں امام سے ذرا سی بھی تاخیر ہوئی ہو ( جیسا کہ عام طور سے ہوتا ہے) تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد آخر میں سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے، اسی طرح اگر مسبوق نے بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر تے وقت سلام کے الفاظ کہہ دیے پھر یاد آنے پر اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو  کھڑے ہوکر بقیہ رکعات ادا کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو نماز ادا ہوجائے گی۔ البتہ اگر مسبوق نے جان بوجھ کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو، یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہوجائے گی، دوبارہ پڑھنا ضروری ہوگا۔

جن صورتوں میں سہواً امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی وجہ سے مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے ان صورتوں میں اگر مسبوق نے سجدہ سہو نہ کیا تب بھی فرائض ادا ہوجانے کی وجہ سے اگرچہ نماز تو ادا ہوجائے گی، لیکن نماز میں نقص آجانے کی وجہ سے یہ ناقص نماز   وقت کے اندر  واجب الاعادہ ہوگی، اس نماز کا  وقت گزر گیا تو اعادہ واجب نہیں ہوگا، تاہم بہتر ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

(ومنها) أنه لو سلم ساهياً أو قبله لا يلزمه سجود السهو وإن سلم بعده لزمه. كذا في الظهيرية هو المختار. كذا في جواهر الأخلاطي. وإن سلم مع الإمام على ظن أن عليه السلام مع الإمام فهو عمد فتفسد. كذا في الظهيرية.

(کتاب الصلوة،الباب الخامس في الإمامة، الفصل السابع فی المسبوق واللاحق، 1/ 91 ط: رشیدیة)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والالتفات بوجهه) كله (أو بعضه) للنهي وببصره يكره تنزيها، وبصدره تفسد كما مر (وقيل) قائله قاضي خان (تفسد بتحويله والمعتمد لا).

(قوله للنهي) هو ما رواه الترمذي وصححه عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم «إياك والالتفات في الصلاة فإن الالتفات في الصلاة هلكة، فإن كان لا بد ففي التطوع لا في الفريضة» وروى البخاري أنه صلى الله عليه وسلم قال «هو اختلاس يختلسه الشيطان من صلاة العبد» وقيده في الغاية بأن: يكون لغير عذر، وينبغي أن تكون تحريمية كما هو ظاهر الأحاديث بحر (قوله وببصره يكره تنزيها) أي من غير تحويل الوجه أصلا. وفي الزيلعي وشرح الملتقى للباقاني أنه مباح «لأنه صلى الله عليه وسلم كان يلاحظ أصحابه في صلاته بموق عينيه» اهـ ولا ينافي ما هنا بحمله على عدم الحاجة أو أراد بالمباح ما ليس بمحظور شرعا، وخلاف الأولى غير محظور تأمل (قوله وبصدره تفسد) أي إذا كان بغير عذر كما مر بيانه في مفسدات الصلاة (قوله وقيل إلخ) قاله في الخلاصة أيضا. والأشبه ما في عامة الكتب من أنه مكروه لا مفسد وقيد عدم الفساد به في المنية والذخيرة بما إذا استقبل من ساعته، قال في البحر: وكأنه جمع بين ما في الفتاوى وما في عامة الكتب بحمل الأول على ما إذا لم يستقبل من ساعته، والثاني على ما إذا استقبل من ساعته، وكأنه ناظر إلى أن الأول عمل كثير، والثاني قليل، وهو بعيد فإن الاستدامة على هذا القليل لا تجعله كثيرا، وإنما كثيره تحويل صدره. اهـ. أقول: يظهر لي أنه إذا أطال التفاته بجميع وجهه يمنة أو يسرة ورأى راء من بعيد لا يشك أنه ليس في الصلاة تأمل."

(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها، ج:1 ،ص:643،ط:سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والمسبوق يسجد مع إمامه مطلقا)سواء كان السهو قبل الاقتداء أو بعده.

"(قوله والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود لأنه لا يتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، فإن سلم فإن كان عامدا فسدت وإلا لا، ولا سجود عليه إن سلم سهوا قبل الإمام أو معه؛ وإن سلم بعده لزمه لكونه منفردا حينئذ بحر، وأراد بالمعية المقارنة وهو نادر الوقوع كما في شرح المنية. وفيه: ولو سلم على ظن أن عليه أن يسلم فهو سلام عمد يمنع البناء."

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو، ج:2 ،ص:82،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المسبوق إذا سلم على ظن أن عليه أن يسلم مع الإمام فهو سلام عمد يمنع البناء. كذا في الخلاصة في مما يتصل بمسائل الاقتداء مسائل المسبوق وهكذا في فتاوى قاضي خان في فصل فيمن يصح الاقتداء به.ولو سلم المسبوق مع الإمام ينظر إن كان ذاكرا لما عليه من القضاء فسدت صلاته وإن كان ساهيا لما عليه من القضاء لا تفسد صلاته؛ لأنه سلام الساهي فلا يخرجه عن حرمة الصلاة. كذا في شرح الطحاوي في باب سجود السهو ."

(کتاب الصلوۃ،الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الأول فيما يفسدها،ج:1،ص:98،ط:دار الفکر)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"كل ‌صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوبا في الوقت وأما بعده فندبا."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت،ص:440، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں