بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد ومدارس کی تقریبات میں تصویر کشی کا حکم


سوال

فوٹو، ویڈیو سے متعلق شرعی احکام کیا ہیں؟ چوں کہ حالاتِ حاضرہ میں مدارس و مساجد کے پروگراموں میں بھی فوٹو گرافی کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے، لہٰذا اگر ان پروگراموں میں جواز کی کوئی گنجائش ہے؟ اگر ہے تو کہاں تک گنجائش ہے،  اس سے بھی مطلع فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ جاندار کی تصویر بنانا سخت حرام ہے اور یہ کام کبیرہ گناہوں میں سے ہے؛ کیوں کہ اس پر احادیث میں بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

جیسا کہ حدیثِ مبارک میں ارشاد ہے:

"عن ‌عائشة رضي الله عنها: أنها اشترت ‌نمرقة فيها تصاوير، فقام النبي صلى الله عليه وسلم بالباب، فلم يدخل، فقلت: أتوب إلى الله مما أذنبت؟ قال: ما هذه النمرقة؟ قلت: لتجلس عليها وتوسدها، قال: إن أصحاب هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم، وإن الملائكة لا تدخل بيتا فيه الصورة."

(صحيح البخاری،ج:۲، ص:۸۸۱ )

    ترجمہ:’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا گدا خریدلیا تھاجس میں تصاویر تھیں، رسول اللہ   ﷺ نے جب ان تصویروں کو دیکھا تو دروازے پر رک گئے ،گھر میں داخل نہیں ہوئے، میں نے عرض کیا کہ: میں اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی طرف توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :یہ گدا کیسا ہے؟میں نے عرض کیا کہ: یہ آپ کے بیٹھنے اور تکیہ لگانے کے  لیے ہے، آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ: ان تصویر والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، ان سے کہا جائے گا کہ جو صورتیں تم نے پیدا کی ہیں، ان میں جان بھی ڈالو اور فرشتے اس مکان میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں‘‘۔

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي طلحة رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تدخل الملائكة بيتا فيه ‌كلب ‌ولا ‌تصاوير."

(صحيح البخاری ،ج:۲،ص:۸۸۰)

    ترجمہ:’’حضرت ابو طلحہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویریں ہوں۔‘‘

ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:

’’عن ‌ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من تحلم بحلم لم يره كلف أن يعقد بين شعيرتين، ولن يفعل، ومن استمع إلى حديث قوم وهم له كارهون، أو يفرون منه، صب في أذنه الآنك يوم القيامة، ‌ومن ‌صور صورة عذب، وكلف أن ينفخ.‘‘

(صحيح البخاری،ج:۲، ص:۱۰۴۲)

    ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا: جو شخص ایسا خواب بیان کرے جو اُس نے سرے سے دیکھا ہی نہیں ہو، اس کو حکم دیا جائے گا کہ  جو کے دو دانوں میںِ گرَہ لگائے اور وہ ہرگز یہ کام نہیں کرسکے گا، اور جو شخص ایسی قوم (یا فرد) کی باتیں سننے کے لئے کان لگائے جو لوگ اسے پسند نہیں کرتے ہوں یا وہ اس سے بھاگتے ہوں، تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا سیسہ ڈالا جائے گا، اور جو شخص کوئی تصویر بنائے گا، اُسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور اسے کہا جائے گا کہ اب اس تصویرمیں روح ڈالو اور وہ کبھی بھی اس میں روح نہیں ڈال سکے گا‘‘۔

نیزتصویر کا بنانا  ہرحال میں حرام ہے، خواہ وہ تذلیل کے لئے بنائی گئی ہو یا تعظیم کے لئے؛ کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت میں مشابہت ہے، اور یہ گناہ تصویر بنانے والے کے لئے ہر صورت میں ثابت ہے۔

جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراماً لا مكروهاً إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ ... (قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله؛ لأنها لا تعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس، لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين، لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر.

(قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم، وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصاً تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل ... [تنبيه] هذا كله في اقتناء الصورة، وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقاً، لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى، كما مر."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ۱ /۶۴۸، ط:سعید)

نیز مفتی اعظم پاکستان، مفتی شفیع عثمانی صاحب ؒ  تحریر فرماتے ہیں:

" حق تعالی کے ننانوے اسماء حسنی میں سے ایک خالق اور مصور بھی ہے اور اس پر پوری امت کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں اسم حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں ، غیر اللہ پر ان الفاظ کا اطلاق بھی جائز نہیں ہے ، قرآن کریم کا ارشاد ہے: هُوَ اللّهُ الْخَالِقُ الْبَارِي ئُ الْمُصَوِّرُاس میں خالق اور مصور ہونے کی صفت حق تعالیٰ شانہ کی مخصوص صفت قرار دی گئی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شریک نہیں ہوسکتا،  تو جس شخص نے کسی جاندار کی تصویر بنائی ، اس نے گویا صفتِ تخلیق و تصویر میں مداخلت اور شرکت عملی کا دعوی کیا ۔"

( تصویر کے شرعی احکام ، ص : ۱۱)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  مساجد ومدارس کے پروگراموں میں جس تصویر سازی وتصویر کشی  کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے سختی کے ساتھ احتراز کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ اس میں تصویر سازی کی حرمت کے علاوہ کئی اور مفاسد بھی پائے جاتے ہیں جو اس قبیح گناہ کی شناعت کو مزید بڑھادیتے ہیں، مثلاً  اس طرح کے اقدامات سے مقدس مقامات اور شعائرِ اسلام  کی حرمت پامال ہوتی ہے، نیز جب عوام، دین کے مراکز (مساجد ومدارس) میں کھلے بندوں اس فعل کو دیکھتے ہیں، تو ان کے دلوں  سے تصویر اور تصویر سازی   کی حرمت نکل جاتی ہے، جو آگے چل کر مزید مفاسد کا ذریعہ بنتی ہے۔لہٰذا ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر، مساجد ومدارس میں تصویر کشی وفوٹو گرافی کی بالکل گنجائش نہیں ہے، اور علمائے کرام، مساجد ومدارس کی انتظامیہ، اور عوام کو اس قبیح رسم سے سختی کے ساتھ احتراز کرنا چاہیے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101103

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں