بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد میں خود کو محتاج ظاہر کرنے والے لوگوں کی امداد کرنے کا حکم


سوال

 مساجد میں کچھ لوگ خود کو غریب اور نادار ظاہرکرتے ہیں، کیا ان کو صدقہ خیرات دینا صحیح ہے؟

جواب

وا ضح رہے کہ جس آدمی  کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو  اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر  فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے اور ایسے شخص کو صدقہ خیرات دینا بھی درست، بلکہ باعثِ ثواب ہے۔

لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔

اس کے علاوہ مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی چاہیے  کہ  جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔

اور اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو تو اس  کے لیے کچھ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرلینے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔

(2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ۔

(3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔

(4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

 تاہم مسجد کے آداب کا تقاضا یہی ہے کہ بوقتِ ضرورت بھی ذاتی چندہ مسجد سے باہر  کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے اور لوگ مسجد سے باہر جاکر اس کی مالی مدد کردیں۔ بہرحال اگر کسی شخص نے مسجد میں سوال کرنے والے کو  صدقہ دیا تو اس پر ثواب ملے گا، نیز اگر تعاون کرنے والے کو سائل کی حالت دیکھ کر اس کے مستحق ہونے کا اطمینان ہوجائے تو زکات  بھی دے سکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):

"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".  

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں