بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 رمضان 1446ھ 16 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

مساجد میں کھانا کھانے یا کھلانے کا حکم


سوال

مساجد میں کھانا یا کسی کو کھلانا کیسا ہے؟

جواب

واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ کیوں کہ مسجد اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں ہے، البتہ صرف مسافر اور معتکف کے لیے بوجہ ضرورت مسجد میں کھانے، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، اسی طرح اگر کبھی چھوٹی موٹی چیز (مثلًا کھجور یا پانی وغیرہ) کھانے کی نوبت آجائے تو معتکف اور مسافر کے علاوہ عام آدمی بھی اعتکاف کی نیت کر کے کھا پی سکتا ہے، لیکن اگر معتکفین یا مسافر لوگوں کے علاوہ عام لوگوں کے لیے کسی بھی عنوان سے کوئی دعوت کرنی ہو تو اس دعوت کا انعقاد مسجد کی حدود سے باہر کسی جگہ کرنا چاہیے، مساجد میں بلاضرورت کھانے کی دعوتوں کا انعقاد کرنا درست نہیں ہے، نیز یہ بات بھی مشاہدہ میں کثرت سے آتی رہتی ہے کہ مساجد میں دعوت کے انعقاد سے مسجد کے دیگر آداب کی بھی بہت زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے اور دعوتوں کے دوران لوگ شور و غوغا، ہنسی مذاق اور لایعنی گفتگو کر کے مسجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں، البتہ اگر مسجد میں معتکفین یا مسافر لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کیا گیا ہو اور کوئی شخص جو نہ تو معتکف ہو اور نہ مسافر ہو وہ اس کھانے میں شریک ہونا چاہے تو اسے چاہیے کہ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو کر یا داخل ہونے کے بعد اعتکاف کی نیت کر کے کچھ نماز اور ذکر اللہ میں مشغول ہونے کے بعد، پھر کھانے میں شریک ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 661)

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.

(قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘

الفتاوى الهندية (5/ 321):

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية. ‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں