بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مساجد کی دیواروں پر نام اور نقش و نگار کا حکم


سوال

مساجد کے اندر قبلہ کی جانب یعنی فرنٹ میں /یا دائیں بائیں دیواروں پر بعض لوگ نقش و نگار کرواتے ہیں اور بعض اسماء الحسنٰی لکھواتے ہیں اور بعض عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام لکھواتے ہیں اور بعض ائمہ اربعہ کے نام لکھواتے ہیں،اس کا شرعی حکم کیا ہے،ایک صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ اسماء حسنی لکھوانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، لیکن دوسری چیزیں فرنٹ میں لکھوانا جائز نہیں ہے،براۓ مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح شرعی حکم بتادیں۔

جواب

بصورتِ مسئولہ مسجد کے منبر ومحراب یا دائیں بائیں دیواروں پر اسما الحسنی یا صحابہ کرام کے نام وغیرہ لکھوانا  یا دیگرکلمات لکھنا  بے ادبی کے پیشِ نظر  (کیوں کہ مسجد کی دیوار، محراب کے گرنے سے یا پلستر اکھڑنے سے مذکورہ کلماتِ مقدسہ کی بےادبی ہے، اسی طرح نمازیوں کے اس کلمات پر نظر پڑنے سے خیال منتشر ہونے کی وجہ سے خشوع وخضوع ختم ہونے کا اندیشہ ہے)  پسندیدہ نہیں ہے،  تاہم اگر کہیں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جائیں  تو وہاں پر ان کے لکھنے  میں کوئی حرج نہیں ہےاور مسجد میں سامنے کی دیوار کے علاوہ میں نقش ونگار کی اجازت ہےلیکن وقف کے مال سے اجازت نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"تكره كتابة القرآن وأسماء الله - تعالى - على الدراهم والمحاريب والجدران وما يفرش، وما ذاك إلا لاحترامه، وخشية وطئه ونحوه مما فيه إهانة فالمنع هنا بالأولى ما لم يثبت عن المجتهد أو ينقل فيه حديث ثابت فتأمل، نعم نقل بعض المحشين عن فوائد الشرجي أن مما يكتب على جبهة الميت بغير مداد بالأصبع المسبحة - بسم الله الرحمن الرحيم - وعلى الصدر لا إله إلا الله محمد رسول الله، وذلك بعد الغسل قبل التكفين اهـ والله أعلم."

(کتاب الصلوۃ، ج:۲، ص:۲۴۷، ط:ایچ ایم سعید)

فتح القدیر میں ہے:

( ولا بأس أن ينقش المسجد بالجص والساج وماء الذهب ) وقوله لا بأس يشير إلى أنه لا يؤجر عليه لكنه لا يأثم به، وقيل هو قربة وهذا إذا فعل من مال نفسه، أما المتولي فيفعل من مال الوقف ما يرجع إلى إحكام البناء دون ما يرجع إلى النقش حتى لو فعل يضمن، والله أعلم بالصواب .

(جلد۱، ص: ۴۲۱، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101858

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں