بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مصائب کے وقت اجتماعی دعا کاحکم


سوال

 گزشتہ دنوں ملک برما کے مختلف شہروں میں شدید زلزلے آئے، جن کی وجہ سے متعدد عمارتیں منہدم ہو گئیں اور بہت سے لوگ جاں بحق ہو گئے۔ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے ہلکے زلزلے محسوس ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے۔ ایسے حالات میں مانڈلے شہر کے کچھ علماء کرام نے عوام الناس کو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے، گناہوں سے توبہ کرنے اور اجتماعی دعا کے اہتمام کی ترغیب دی۔ انہوں نے ایک مناسب تاریخ اور مقام مقرر کرکے وہاں اجتماعی دعا کرنے کا اعلان کیا، اور یہ خبر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے عوام تک پہنچی۔ تاہم بعض افراد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مصیبت کے موقع پر اس طرح باقاعدہ تاریخ مقرر کرکے اجتماعی دعا کرنا نہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، نہ ہی سلف صالحین سے، لہٰذا یہ عمل بدعت اور ناجائز ہے اور اس سے اجتناب ضروری ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے عوام الناس میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا گزارش ہے کہ اس مسئلے کے متعلق واضح شرعی راہنمائی فرما دیں: 1. کیا مصیبت اور آزمائش کے وقت اجتماعی دعا کا اہتمام شرعاً جائز ہے؟ 2. کیا اس عمل کو بدعت یا ناجائز کہنا درست ہے؟ 3. اس سلسلے میں سلف صالحین کا کیا طرز عمل رہا ہے؟

جواب

1۔2۔3۔ واضح رہے کہ جب کوئی مصیبت یا آزمائش نازل ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، نماز کا اہتمام، اور دعا کا اہتمام سنتِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مصیبت و ابتلاء کے مواقع پر توبہ و استغفار، نماز اور دعا کی ترغیب دی ہے۔ اسی طرح، ان مواقع پر اجتماعی دعا کا اہتمام بھی شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ اسے لازم اورضروری  نہ سمجھا جائے۔ لہٰذا مصیبت یا آزمائش کے وقت اجتماعی دعا کو مطلقاً ناجائزاوربدعت  کہنا درست نہیں،اورسلف صالحین  یہ ثابت ہے کہ وہ مصائب آزمائش کے اجتماعی طورپربھی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے توبہ واستغفارکااہتمام کرتے اوردعابھی مانگتے  جیسا کہ حضرت  عمر،اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم ،حضرت عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے اجتماعی طوربھی رجوع الیٰ اللہ اوردعاکااہتمام فرمایا تھا۔

حاشية الطحطاوی  على مراقي الفلاح  میں ہے:

"وعموم الأمراض" كلمتهم متفقة على أنهم يصلون فرادى ويدعون في عموم الوباء والأمراض قال في النهر وهو شامل للطاعون لأن الوباء اسم لكل مرض عام طاعونا كان أو غيره ولا ينعكس وإن الدعاء يفعله كما يرفعه الناس في الجبل مشروع وليس هذا دعاء برفع الشهادة لأنها أثره لا عينه يعني فصار كملاقاة العدو وقد ثبت أنه صلى الله عليه وسلم سأل العافية منها اهـ قال وعلى هذا فما قاله ابن حجر من أن الإجتماع للدعاء برفعه بدعة أي حسنة فإذا اجتمعوا صلى كل واحد ركعتين ينوي بهما رفعه قال وهذه المسئلة من حوادث الفتوى اهـ وتمامه في الأشباه"

 (کتاب الصلوٰۃ،باب صلوٰۃ الکسوف والخسوف،ص:547،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي موسى رضي الله عنه قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعا يخشى أن تكون الساعة فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود، ما رأيته قط يفعله، وقال: هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله بها عباده، فإذا رأيتم شيئا من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره . متفق عليه.(هذه الآيات) أي: كالكسوفين، والزلازل، والصواعق...فإذا رأيتم شيئا من ذلك) أي: مما ذكر من الآيات. (فافزعوا) أي: التجئوا من عذابه. (إلى ذكره) : ومنه الصلاة. (ودعائه واستغفاره. "

(کتاب الصلوٰۃ،باب صلوٰۃ الخسوف،ج:3،ص: 1095،ط:دار الفكر)

الأشباه والنظائر   میں ہے:

"وذكر شيخ الإسلام العيني رحمه الله في شرح الهداية: الريح الشديدة والظلمةالهائلة بالنهار والثلج والأمطار الدائمة والصواعق والزلازل وانتشار الكواكب والضوء الهائل بالليل وعموم الأمراض وغير ذلك من النوازل والأهوال والأفزاع إذا وقعن صلوا وحدانا وسألوا وتضرعوا، وكذا في الخوف الغالب من العدو (انتهى) .فقد صرحوا بالاجتماع والدعاء بعموم الأمراض،"

 (الفن الثالث،الفروق،ص:332،ط:دار الكتب العلمية)

صحيح البخاري  میں ہے:

"حدثنا الحسن بن محمد قال: حدثنا محمد بن عبد الله الأنصاري قال: حدثني أبي عبد الله بن المثنى، عن ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن أنس : أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب فقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا، قال فيسقون."

"ترجمہ :حضرت انس رضی  اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جب قحط پڑتا توحضرت  عمر بن خطاب  رضی  اللہ عنہ   حضرت  عباس بن عبدالمطلب  رضی  اللہ عنہ  کے ذریعے دعا کرتے اور کہتے: اے اللہ! ہم پہلے اپنے نبی کے وسیلے سے تجھ سے بارش طلب کرتے تھے تو تُو ہمیں سیراب کر دیتا تھا، اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے وسیلے سے تجھ سے بارش مانگتے ہیں، پس ہمیں سیراب فرما۔حضر  ت انس  رضی  اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ پھر بارش نازل ہو جاتی تھی۔"

 (کتاب الاستسقاء،‌‌باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا،ج:2،ص:27ط:السلطانية)

مصنف ابن أبي شيبة میں ہے:

"حدثنا معن بن عيسى، عن محمد بن هلال، أنه شهد عمر بن عبد العزيز في الاستسقاء بدأ بالصلاة قبل الخطبة، قال: ورأيته استسقى فحول رداءه"

"ترجمہ :محمد بن ہلال سے روایت ہے کہ وہ عمر بن عبدالعزیز  رحمہ اللہ کےساتھ استسقاء  کے موقع پر حاضرہوئےاورحضرت  عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے خطبہ سے پہلے نماز شروع کی، اور میں نے انہیں دیکھا کہ جب وہ دعا کر رہے تھے تو انہوں نے اپنی چادر کو الٹ دیا۔"

(کتاب الصلوات،‌‌‌‌من كان يصلي صلاة الاستسقاء،ج:2،ص:221،ط:مكتبة الرشد )

وفیہ ایضا:

"حدثنا الثقفي، عن خالد، عن عبد الله بن الحارث، أن ابن عباس صلى بهم في زلزلة كانت أربع سجدات فيها ست ركوعات"

"ترجمہ:عبد اللہ بن حارث سے روایت ہے کہ  حضرت ابن عباس  رضی  اللہ عنہما    نے ایک زلزلے کے وقت ہمیں نماز پڑھائی، اس نماز میں چار سجدے اور چھ رکوع تھے۔"

(کتاب الصلوات،‌‌في الصلاة في الزلزلة،ج:2،ص:220،ط:مكتبة الرشد )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں