بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسح علی الخفین کی مشروعیت


سوال

مسح علی الخفین کی مشروعیت کہاں سے ثابت ہے؟

جواب

صحیح احادیث سے شہرت کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شرائط کے ساتھ خفین پر مسح کرنے کی نہ صرف اجازت دی؛ بلکہ خود عمل بھی فرمایا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سفر کے دوران وضو فرمایا اور میں آپ پر پانی ڈال رہا تھا، آپ نے ایسا شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں، جس کی بنا پر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دامن کے نیچے سے باہر نکالے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفین پر مسح فرمایا، تو میں نے عرض کیا کہ کیا حضرت پیر دھونا بھول گئے؟ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  تم ہی بھول گئے، مجھے میرے رب نے یہی حکم دیا ہے.
اسی طرح حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے بھی مسح علی الخفین کی روایت مشہور ہے، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے بیان پر بہت خوش ہوتے تھے؛ اس لیے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سورۂ مائدہ کی آیت وضو کے نزول کے بعد ہی دولتِ اسلام سے مشرف ہوئے تھے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے وہ فرماتے تھے کہ میں نے 70 ایسے صحابہ سے ملاقات کی ہے جو سب کے سب مسح علی الخفین کو جائز قرار دیتے تھے۔

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک میرے سامنے مسح علی الخفین کا جواز روز روشن کی طرح عیاں نہیں ہوگیا، میں نے اس کے جواز کا قول نہیں کیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اہلِ سنت والجماعۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مسح علی الخفین ان کی نشانی بتلائی۔
المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 166):
"يجب أن يعلم بأن المسح على الخفين جائز عند عامة العلماء بآثار مشهورة قريبة من التواتر، روى عمر وعلي والعبادلة الثلاثة وصفوان بن عسال المرادي وغيرهم رضي الله عنهم عن رسول الله عليه السلام، وعن مغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال «توضأ رسول الله عليه السلام في سفر وكنت أصب عليه الماء وعليه جبة شامية ضيقة الكمين فأخرج يديه من تحت ذيله ومسح على خفيه فقلت: نسيت غسل القدمين فقال: «بل أنت نسيت، بهذا أمرني ربي عزّ وجلّ». وعن جرير بن عبد الله البجلي رضي الله عنه أنه مسح علی خفيه وقال: «رأيت النبي عليه السلام فعل ذلك، فقالوا لجرير: أبعد نزول سورة المائدة، وعنوا به وأرجلكم على قراءة النصب الدالة على فرضية الغسل، فقال جرير: وهل كان إسلامي إلا بعد سورة المائدة» ، وعن الحسن البصري رحمه الله قال: أدركت سبعين نفراً من أصحاب رسول الله عليه السلام كلهم يرون المسح على الخفين.
ولكثرة الأخبار قال أبو حنيفة رحمه الله: ما قلت بالمسح على الخفين حتى جاء في مثل ضوء النهار، وفي رواية قال: حتى رأيت له شعاعاً كشعاع الشمس. وعن أنس بن مالك رضي الله عنه أنه سُئل عن السنّة والجماعة فقال: أن تحب الشيخين ولا تطعن في الحسنين وتمسح على الخفين. وقال الكرخي رحمه الله: من أنكر المسح على الخفين يخشى عليه الكفر. قالوا: وعلى قياس قول أبي يوسف رحمه الله: من أنكر المسح على الخفين يكفر لأن حديث المسح على الخفين بمنزلة التواتر عنده، ومن أنكر التواتر يكفر".
 فقط و ﷲ اعلم


فتوی نمبر : 144111200358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں