بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصارف زکوٰۃ ، زکوٰۃ کی رقم سے کنواں بنانے کا حکم


سوال

زکوٰۃ کے مصارف کیا ہیں؟ کیا میں  ضرورت مندوں کے لیے  زکوٰۃ  کی  رقم  سے پانی کا کنواں بنوا سکتا ہوں؟

جواب

1۔۔۔ زکوٰۃ  کے مصارف  آٹھ  ہیں:  فقیر، مسکین، عامل ، مؤلفۃ القلوب،  رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

(1) -فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

(2)- مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

فقیر اور مسکین کے اصلِ معنی میں اگرچہ اختلاف ہے، لیکن زکوٰۃ کے باب میں دونوں یکساں ہیں، کوئی اختلاف نہیں،جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اس کی ضروریاتِ اصلیہ سے زائد بقدرِ نصاب مال نہ ہو اس کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اور اس کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز ہے۔

(3) -عامل سے مراد وہ شخص ہے جو اسلامی  حکومت کی طرف سے صدقات، زکوٰۃ، اور عشر وغیرہ لوگوں سے وصول کرکے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہو، یہ چوں کہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں صرف کرتا ہے؛ اس لیے حکومت پر  ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کو  اس زکوٰۃ میں سے  اس کی خدمت کا معاوضہ دے،  (لیکن اب یہ مصرف بھی موجود نہیں ہے حکومتوں کی طرف سے امولِ ظاہرہ کی  زکوٰۃ وصول کرنے کے  لیے عاملین مقرر نہیں  کیے جاتے)۔

(4)-مؤلفۃ القلوب(صحیح قول کے مطابق)  وہ  نومسلم  اور ضعیف الاسلام فقراء  کو کہا جاتا ہے،  جن کو   ابتدائے اسلام میں دل جوئی اور اسلام پر پختہ کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاتی تھی؛ کیوں کہ اسلام کا شجرہ طیبہ اس وقت ابتدائی مراحل میں تھا، اور قوت کی ضرورت تھی، لیکن جب اللہ تعالی نے اسلام کو قوت اور غلبہ عطا فرمایا تو یہ مصرف باجماع صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین  منسوخ ہوا، اب یہ مصرف باقی نہیں رہا  اور نہ ہی اس میں زکوٰۃ کی رقم صرف کی جاسکتی ہے۔

(5) -رِقاب سے مراد وہ غلام ہیں جن کے آقاؤں نے کوئی مقدار متعین کرکے کہہ دیا ہو کہ اتنا مال ہمیں کما کر دو  تو تم آزاد ہو، تو یہ غلام بھی زکوٰۃ کے مستحقین میں سے ہیں، ان کی گلو خلاصی  میں  زکوٰۃ کی رقم سےمدد کی جاسکتی ہے،(  لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کو صرف کرنے کی نوبت آتی ہے)۔

(6)- غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے  ادا کرنے  کے بعد  اس کے پاس بقدرِ نصاب مال  باقی نہ رہے۔

(7) -فی سبیل اللہ  سے مراد وہ غازی مجاہد ہے جس کے پاس اسلحہ اور جنگ کا ضروری سامان خریدنے کے لیے مال نہ ہو، یا وہ شخص جس کے ذمہ حج فرض ہوچکا ہو مگر اس کے پاس اب مال نہیں رہا جس سے وہ حج ِمفرض ادا کرے، ان  دونوں کو اس کارِ خیر  کے لیے زکوٰۃ دینا جائز،  بلکہ افضل ہے۔

(8) - ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے  اور  کسی ذریعے سے اپنی رقم مہیا نہ ہو سکے تو اس کو بھی زکوٰۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے، اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں  بقدر نصاب  مال موجود ہو،موجودہ زمانے میں تقریبًا یہ بھی عملًا  ختم  ہے، سب کے ذرائع ایسے ہیں کہ رقم مل سکتی ہے۔

سب سے بہترین مصرف  مدارس کے  غریب  طلباء ہیں جو کہ غریب ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے طالب علم بھی ہیں، اور اپنے  عزیز و اقارب میں جو  غریب  لوگ ہوں (یعنی جوصاحب نصاب نہ ہوں) وہ بہترین مصرف  ہیں؛ کیوں کہ ان کو زکوٰۃ دینے میں دوہرا اجر ملتا ہے، ایک تو زکوٰٰۃ کی ادائیگی کا دوسرا علماء و طلباء کے ساتھ تعاون کرنے  اور ان کو دین کی خدمت کے لئے فارغ کرنے کا، اسی طرح عزیز و اقارب کو زکوٰۃ دینے  میں ایک اجر تو زکوٰۃ کی ادائیگی کا  ملتا  ہے، دوسرا اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کا۔

2۔۔۔واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ مال ِزکوٰۃ جس کو دیا جاتا ہے اس کو اس مال کا مالک بنایا جائے، محض استعمال کی عام اجازت دینے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی  بلکہ سے  اباحت کہتے ہیں ، اور اباحت سے زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں ہوتی۔

لہذا صورت مسئولہ میں زکوٰۃ کی رقم سے پانی کا  کنواں  بنانے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی ؛ کیوں کہ اس میں تملیکِ فقیر کی شرط نہیں پائی جاتی۔

رد المحتار میں ہے:

"(هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسكين من لا شيء له) على المذهب ... (قوله: من لا شيء له) فيحتاج إلى المسألة لقوته وما يواري بدنه ... (وعامل) يعم الساعي والعاشر (فيعطى) ولو غنيا ... لأنه فرغ نفسه لهذاالعمل فيحتاج إلى الكفاية والغنى لا يمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل ... (ومكاتب) ... وسكت عن المؤلفة قلوبهم لسقوطهم إما بزوال العلة أو نسخ بقوله صلى الله عليه وسلم لمعاذ في آخر الأمر: خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم ... (قوله: لسقوطهم) أي في خلافة الصديق لما منعهم عمر - رضي الله تعالى عنهما - وانعقد عليه إجماع الصحابة ... (ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) ... (قوله: لا يملك نصابا) قيد به؛ لأن الفقر شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير ... (وفي سبيل الله وهو منقطع الغزاة) ... (قوله: وهو منقطع الغزاة) أي الذين عجزوا عن اللحوق بجيش الإسلام لفقرهم ... (وابن السبيل وهو) كل (من له ماله لا معه)."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج:2،ص:339،ط: ایچ ایم سعید)

رد المحتار میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه) ... لعدم التمليك وهو الركن ... (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج:2،ص:344،ط: ایچ ایم سعید)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) كره (نقلها إلا إلى قرابة) بل في الظهيرية لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم ... أو إلى طالب علم) وفي المعراج التصدق على العالم الفقير أفضل ... في لرد تحته ... عن أبي هريرة مرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: يا أمة محمد والذي بعثني بالحق لا يقبل الله صدقة من رجل وله قرابة محتاجون إلى صلته ويصرفها إلى غيرهم والذي نفسي بيده لا ينظر إليه الله يوم القيامة. اهـ. رحمتي والمراد بعدم القبول عدم الإثابة عليها وإن سقط بها الفرض؛ لأن المقصود منها سد خلة المحتاج وفي القريب جمع بين الصلة والصدقة...(قوله: أفضل) أي من الجاهل الفقير قهستاني."

(کتاب الزکوٰۃ ، باب مصرف الزکوٰۃ والعشر، ج:2،ص:353،ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں