بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرضِ وفات میں صدقہ کرنے کاحکم


سوال

میری والدہ بیمار ہیں اور ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے،والدہ کے پاس کچھ زیورات ہیں ،  یہ زیورات ان کی ذاتی ملکیت ہیں ،  ہم بھائی جو پیسے ان کو خرچہ وغیرہ کے لیے دیتے تھے ، ان پیسوں کو جمع کرکے انہوں نے خریدے ہیں، ان کے علاوہ ان کے پاس کوئی نقد رقم نہیں،وہ چاہتی ہیں کہ ان زیورات  کو کسی نیک کام  میں خرچ کریں ، اس کے لیے انہوں نے مجھے کہا ہے ، جب کہ ہمارے والد صاحب بھی زندہ ہیں او رہم پانچ بھائی اور دو بہنیں بھی زندہ ہیں،اب پوچھنا یہ ہے کہ والدہ کا اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں؟اگر وہ اپنی زندگی میں صدقہ کرنا چاہے تو کیا حکم ہے؟ اور اگر ان کے انتقال کے بعد ہم صدقہ کریں تو کیا صورت ہوگی؟

جواب

 واضح رہے کہ انسان جب ایسی حالت کو پہنچ جائے کہ موت کے قریب ہوجا ئے تو شرعاً اس کے مال سے ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے  اور اس کو پورے مال کے  ایک تہائی میں اختیار باقی رہتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرسائل کی والدہبیمار ہے اورڈاکٹروں نے لاعلاج قراردےدیا ہےاوروہاپنے زیورات صدقہ کرناچاہتی ہے تو ایک تہائی تک صدقہ کرے،اس سے زیادہ صدقہ کرنا یا وصیت کرنا ورثاء کی رضامندی کے بغیر درست نہیں، اور اگر والدہ اپنی زندگی میں صدقہ نہیں کرتی تو ان کے انتقال کے بعد سارے کے سارے زیورات ترکہ ہوں گے اوراس میں سب ورثاء کا حق ہوگا جسے ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا، پھراگرورثاء میں سے کوئی اپنی خوشی ورضامندی سے اپنے حصے میں سے کچھ صدقہ کرکےوالدہ کو ایصالِ ثواب کرےتویہ باعثِ ثواب ہے۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعد بن أبي وقاص قال: مرضتُ عام الفتح مرضاً أشفيت على الموت فأتاني رسول الله صلّى الله عليه وسلّم يعودني فقلتُ: يا رسول الله: إنّ لي مالا ًكثيراً وليس يرثني إلاّ ابنتي أفأوصي بمالي كله؟ قال: لا، قلت: فثلثي مالي؟ قال: لا، قلتُ: فالشطر؟ قال: لا، قلت: فالثلث؟ قال: الثلث والثلث كثير إنّك إن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم ‌عالة ًيتكففون الناس وإنّك لن تنفق نفقةً تبتغي بها وجه الله إلا ّأجرت بها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك" .

(مشكاة المصابيح، كتاب الفرائض والوصايا، باب الوصايا، الفصل الأوّل، رقم الحديث:3071، ج:2،ص:924،ط:المكتب الإسلامي)

  ترجمہ:"(حضرت) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال اتنا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارہ پر پہنچ گیا، چنانچہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے میرے پاس تشریف لائےتو میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!میرےپاس بہت مال ہے، مگر ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے،تو کیا میں اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کرجاؤں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں،پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دوتہائی مال کے بارے میں وصیت کردوں؟آپ نے فرمایا:نہیں،میں نے پوچھا:نصف کے لیے؟فرمایا:نہیں،میں نے پوچھا:ایک تہائی کے لیے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتے ہو،اگرچہ یہ بھی بہت ہے۔اوریادرکھو!اگر مال اپنے وارثوں کو مال دار خوش حال چھوڑ جاؤگےتو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑجاؤاور وہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں، جان لو!تم اپنے مال کا جوبھی حصہ اللہ تعالی کی رضاوخوشنودی کے جذبہ سےخرچ کروگےتوتمہیں اس کے خرچ کاثواب ملے گا،یہاں تک کہ اس لقمہ کابھی ثواب ملے گاجو تم اپنی بیوی کے منہ تک لے جاؤگے۔"

(مظاہر حق جدید، جلدسوم،ص:۲۳۲، ط:دار الاشاعت کراچی)

الفتاوی الہندیہ میں ہے:

"قال في الأصل: ولا تجوز ‌هبة ‌المريض ولا صدقته إلا مقبوضةً فإذا قبضت جازت من الثلث وإذا مات الواهب قبل التسليم بطلت، يجب أن يعلم بأن ‌هبة ‌المريض هبة عقداً وليست بوصية واعتبارها من الثلث ما كانت؛ لأنهّا وصية معنى؛ لأنّ حق الورثة يتعلّق بمال المريض وقد تبرّع بالهبة فيلزم تبرعه بقدر ما جعل الشرع له وهو الثلث، وإذا كان هذا التصرف هبة عقداً شرط له سائرشرائط الهبة، ومن جملة شرائطها قبض الموهوب له قبل موت الواهب، كذا في المحيط" .

(الفتاوى الهندية، كتاب الهبة، الباب العاشر في هبة المريض، ج:4،ص:400،ط:دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں