بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا مروان نام رکھنے کا حکم


سوال

 مروان نام بچے  کے لیے رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

لفظ "مروان " عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے حروف اصلیہ "مرو" ہیں اور "ان"زائد ہے۔ "مرو" کا  معنی "چقماق کا پتھر " ہے۔ عربی  زبان میں یہ لفظ  نام کے طور پر  استعمال ہوتا ہے اور   صحابہ  کے ناموں میں سے ہے،  صحابی رسول کا نام ہونے کی حیثیت سے یہ نام رکھنا درست ہے۔ 

تاج العروس  میں ہے:

"مرو: (و (} المرْو: حِجارة بيض براقة توري النار) ، الواحدة {مرْوة؛ نقله الجوْهرِي عن الأصْمعي؛ قالَ أَبو ذؤيْب: الواهِب الأُدْم} كالمَرْو الصلابِ إِذاما حارد الخور واجْتث المجاليحقال الأزْهري: يكون المرْو أبْيض، ولا يكون أسْود ولا أحْمر، وقد يقْدح بالحجر الأحْمر ولا يسمّى {مَرْوا، وتكون} المرْوَة كجمْع الإنْسان وأعْظم وأصْغر؛ قال: وسَألْت عنْها أعْرابِيا من بني أسد فقال: هي هذه القداحات التي تقْدح مِنْهَا النار....... (و) مرْوان: (جبل) ؛) قال ابن دُرَيْد: أحْسَب ذلك؛ وقال نصْر: مَرْوان مَوْضعٌ أَحْسبه بأكْناف الربذة، وقيل: جبل، وقيل: حصْن باليمن."

(ج: 39،ص: نمبر 520، ط: دار الهدایة)

اسد الغابة میں ہے: 

"4850- مروان بن مالك

مروان بن مالك الداري قال عبد الملك بن هشام في تسمية النفر الداريين الذين أوصى لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر، قال: وعرفة بن مالك، وأخوه مرار بن مالك.قال ابن هشام: مروان بن مالك وقد تقدم في مرار، والله أعلم."

(ج:5،ص،141،ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508101449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں