بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروان بن حکم کی صحابیت


سوال

مروان بن حکم صحابی تھے یا نہیں ؟آ پ  حضرات کے دارالافتاء کی ویب سائٹ پر موجود  فتوے میں  اس بارے میں تین آراء لکھی ہیں۔براہِ  کرم! کسی ایک رائے کی ترجیح بیان فرما دیں کہ راجح ترین اور فیصلہ کن قول کیا ہے؟

جواب

جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک مروان بن حکم کی صحابیت ثابت نہیں ہے، ان حضرات کے نزدیک وہ صحابی نہیں،  بلکہ تابعی تھا۔ذیل میں اس بارے میں ائمہ محدثین رحمہم اللہ کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں:

حافظ ابنِ اثیر  جزری رحمہ اللہ "أسد الغابة" میں لکھتے ہیں:

"مَروان بنُ الحكم بنِ أبي العاص ابنِ أميّة بنِ عبد شمس بنِ عبد مناف القُرشيُّ الأُمويُّ ... وُلد عَلى عَهدِ رسولِ الله ...  ولَم يَر النبيَّ-صلّى الله عليه وسلّم-".

ترجمہ:

’’مروان بن الحکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مناف القرشی الاموی:۔۔۔ اس کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوئی تھی۔۔۔لیکن اس نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی‘‘۔

(أسد الغابة، 5/152، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

حافظ ابنِ عبد البر رحمہ اللہ "الاستيعاب في معرفة الأصحاب"میں لکھتے ہیں:

"تُوفِّي رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم- وهو ابنُ ثمان سِنين أو نحوِها، ولَم يَرهُ".

ترجمہ:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت وہ(مروان) تقریباً آٹھ سال کا تھا،اس نے آپ صلی  علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی‘‘۔

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب، حرف الميم، ترجمة: مروان بن الحكم، 1/434)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ اولاً "فتح الباري شرح صحيح البخاري"میں لکھتے ہیں:

"مَروان بنُ الحكم بنِ أبي العاص بنِ أميّة، ابنُ عمِّ عُثمان بنِ عفّان: يُقال له رُؤيةٌ، فَإنْ ثَبتتْ فَلا يُعرج عَلى مَن تَكلّم فيه".

ترجمہ:

’’ مروان بن الحکم بن ابی العاص بن امیہ ،(حضرت) عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا چچازاد۔کہاجاتا ہے کہ اس کو رؤیت حاصل ہے(یعنی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے)،اگر یہ ثابت  ہوجائے تو جس نے اس کے بارے کلام  کیا ہے اس کی رائے قبول نہیں کی جائے گی‘‘۔

(فتح الباري، مقدمة، الفصل التاسع،  1/443، ط:دار المعرفة-بيروت)

پھر"الإصابة في تمييز الصحابة"میں لکھتے ہیں:

"لَم أر مَن جزمَ بِصُحبتِه".

ترجمہ:

’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا جس نے اس (مروان) کی صحابیت کا یقین کیا ہو‘‘۔

(الإصابة، الميم بعدها الراء، 3/134)

اور آخر میں "تقريب التهذيب"میں لکھتے ہیں:

"لَا تثبتُ له صُحبةٌ"

ترجمہ:

’’ اس(مروان) کی صحابیت ثابت نہیں‘‘۔

(تقريب التهذيب، بقية حرف الميم، رقم:6567، ص:525، ط: دار الرشيد)

علامہ عینی رحمہ اللہ "عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں  لکھتے ہیں:

"أمّا مروان، فإنّه لا يصحُّ له سَماعٌ مِن النبيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- ولا صُحبةَ".

ترجمہ:

’’جہاں تک مروان کا تعلق ہے تو اس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سےسماع ثابت ہے نہ ہی صحبت‘‘۔

(عمدة القاري، كتاب الشروط، 13/290، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ"المغني في الضعفاء"میں لکھتے ہیں:

"مَروان بنُ الحكم: قال البُخاري: لَم يَر النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم".

ترجمہ:

’’مروان بن الحکم۔(امام) بخاری رحمہ اللہ (اس کے متعلق) فرماتے ہیں: اس نے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی ‘‘۔

پھر حافظ ذہبی رحمہ اللہ اپنی رائے لکھتے ہیں:

"قلتُ: هُو تابعيٌّ، لَه تَلك الأفاعيلُ". 

ترجمہ:

’’میں (حافظ ذہبی رحمہ اللہ) کہتا ہوں:  وہ تابعی تھا، اور اس کے  کچھ برے کارنامے بھی   تھے‘‘۔

(المغني في الضعفاء، حرف الميم، رقم:6163، 2/651)

علامہ عراقی رحمہ اللہ"تحفة التحصيل في ذكر رواة المراسيل"میں لکھتے ہیں:

  "قال الترمذيُّ: سألتُ محمّداً يَعني البُخاريَّ، قلتُ له: مَروان بنُ الحكم رأى النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم-؟ قال: لَا، انتهى". 

ترجمہ:

’’(امام) ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے محمد یعنی (امام) بخاری رحمہ اللہ سے  پوچھا:کیا مروان  بن الحکم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟انہوں نے فرمایا:نہیں‘‘۔

(تحفة التحصيل لابن العراقي، حرف الميم، ص:298، ط: مكتبة الرشد- الرياض)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کا ندھلوی رحمہ اللہ"أوجز المسالك إلى موطأ مالك"  میں لکھتے ہیں:

"مروان بنُ الحكم بنِ العاص الأمويُّ المدنيُّ، ولَا يثبتُ لَه صُحبةٌ".

ترجمہ:

’’مروان بن الحکم بن ابی العاص الاموی المدنی۔اس کی صحابیت ثابت نہیں‘‘۔

(أوجز المسالك، 1/483، ط: دار القلم-دمشق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں