بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ "مسح سوکس" موزوں پر مسح کرنے کا حکم


سوال

 ہمارے یہاں ایک کمپنی نے مسح سوکس کے نام سے جرابیں متعارف کروائی ہیں ، جس میں انہوں نے جوربین ثخینین کی شرائط پوری کرنے کی کوشش کی ہے ، اور اس پر انہوں نے متعدد مفتیانِ کرام سے فتویٰ لیا ہے ، اور انہوں نے ان جرابوں پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیا ہے کہ اس میں ثخینین کی جملہ شرائط موجود ہیں، جب کہ کچھ دیگر حضرات نے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے ، عدم جواز کے قائلین کا کہنا ہے کہ ان میں ثخینین کی شرائط پوری نہیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں پانی کا جانا ان کی اپنی موٹائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں کوئی لفافے جیسی چیز استعمال کی گئی ہے، جس کی وجہ سے اس میں پانی نہیں جاتا، اسی طرح یہ پنڈلی کے ساتھ اپنی موٹائی کی وجہ سے قائم نہیں رہتی، بلکہ ربڑ وغیرہ کی وجہ سے قائم رہتی ہے ، نیز انہوں نے اس کے اندر ہوا بھری ہےتو وہ غبارے کی طرح پھول جاتی ہے۔

بندہ نے اس کمپنی کے مالکان سے رابطہ کیا،اور ان کے سامنے یہ ساری باتیں رکھ دیا،تو انہوں نے لفافے والے اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اس میں مختلف چیزیں استعمال کی گئی ہیں، جن میں کاٹن بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی مزیددو چیزوں کا نام لیا اور کہا کہ جب تین مختلف چیزیں مل گئیں، تو ان کی ماہیت بدل گئی،اب وہ لفافہ نہیں ہے بلکہ جراب ہے ، اور پنڈلی کے ساتھ ربڑ کی وجہ سے قائم رہنے والے اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اگر آپ اس حصے کو کاٹ بھی دیے تب بھی جراب پنڈلی کے ساتھ قائم رہے گی ،یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ بہت سے موزوں کے اوپر والے حصے پر پلاسٹک، ربڑ لگی ہوئی ہوتی ہے، اسے اگر کاٹ بھی دیا جائے تب بھی موزا پنڈلی کے ساتھ قائم رہتا ہے ،اور کچھ اکابر کے عمل کا بھی حوالہ دیا کہ یہ جرابیں وہ استعمال کر رہے ہیں ،ہمارے ہاں ان مختلف آراء کی وجہ سے بہت سے احباب تشویش کا شکار ہیں، اگر ان پر مسح جائز ہے تو لوگوں کے لیے بڑی سہولت ہو گی ،کہ انہیں بند جوتوں میں پہننے میں کوئی تکلف نہیں کرنا پڑتا جب کہ موزوں کے لیے بڑے سائز کا جوتا خریدنا پڑتا ہے ۔

اس مسئلے کی شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اصولی جواب یہی ہے کہ اگر   مذکورہ موزے ایسے ہو ں کہ  انہیں جوتے کے بغیر پہن کرمسلسل تین میل (بارہ ہزار قدم) چلنا ممکن ہو،اورموزےبغیر کسی چیز کے سہارےپنڈلیوں پر  ٹھہرےرہیں،اوراتنے موٹے ہوں کہ پانی قدم تک تجاوز نہ کرتا ہواورـ   اس کو پہننے کے بعد پاؤں کی جلد نظر نہ آتی  ہوتو ان موزوں پر مسح کرنا درست ہے،ورنہ اگر اس میں  سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو مسح کرنا درست نہ ہوگا اور اگر  اس مسح سے نماز پڑھی گئی تو وضو کرکے دوبارہ لوٹانا ضروری ہوگا۔باقی اگر ان موزوں میں پلاسٹک وغیرہ شامل کرکے  ان کو  ثخینین بنایا گیا ہے ،جس کے بعد پانی اس میں جذب نہیں ہوتا،اسی طرح  یہ موزے بغیر سہارے کے پیر پر رک سکتے ہوں اور مسلسل تین میل چلنا ممکن ہو تو  ایسی صورت میں اس موزے پر مسح جائز ہے،ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(أو جوربيه) ولو من غزل أو شعر (الثخينين) بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق ولا يرى ما تحته ولا يشف إلا أن ينفذ إلى الخف قدر الغرض.

(قوله: على الثخينين) أي اللذين ليسا مجلدين ولا منعلين نهر، وهذا التقييد مستفاد من عطف ما بعده عليه، وبه يعلم أنه نعت للجوربين فقط كما هو صريح عبارة الكنز. وأما شروط الخف فقد ذكرها أول الباب، ومثله الجرموق ولكونه من الجلد غالبا لم يقيده بالثخانة المفسرة بما ذكره الشارح؛ لأن الجلد الملبوس لا يكون إلا كذلك عادة (قوله: بحيث يمشي فرسخًا) أي فأكثر كما مر ... (قوله: بنفسه) أي من غير شد ط (قوله: ولايشف) بتشديد الفاء، من شف الثوب: رق حتى رأيت ما وراءه، من باب ضرب مغرب.

وفي بعض الكتب: ينشف بالنون قبل الشين، من نشف الثوب العرق كسمع ونصر شربه قاموس، والثاني أولى هنا لئلا يتكرر مع قوله تبعا للزيلعي ولا يرى ما تحته، لكن فسر في الخانية الأولى بأن لا يشف الجورب الماء إلى نفسه كالأديم والصرم، وفسر الثاني بأن لا يجاوز الماء إلى القدم وكأن تفسيره الأول مأخوذ من قولهم اشتف ما في الإناء شربه كله كما في القاموس، وعليه فلا تكرار فافهم."

(کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج:1، ص:269، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(منها) أن يكون الخف مما يمكن قطع السفر به وتتابع المشي عليه ويستر الكعبين وستر ما فوقهما ليس بشرط. هكذا في المحيط حتى لو لبس خفا لا ساق له يجوز المسح إن كان الكعب مستورا.ويمسح على الجورب المجلد وهو الذي وضع الجلد على أعلاه وأسفله. هكذا في الكافي.

والمنعل وهو الذي وضع الجلد على أسفله كالنعل للقدم. هكذا في السراج الوهاج. والثخين الذي ليس مجلدا ولا منعلا بشرط أن يستمسك على الساق بلا ربط ولا يرى ما تحته وعليه الفتوى. كذا في النهر الفائق."

(کتاب الطہارۃ، الباب الخامس فی المسح علی الخفین، ج:1، ص:32، ط:دارالفکر)

شرح المنیۃ میں ہے:

"(ويجوز المسح على الخفين المتخذة من اللبود التركية لإ مكان قطع المسافة بها) حتى قالوا لو شاهد أبو حنيفة صلابتها لأفتي بالجواز لشدة دلكها وتداخل اجزائها بذلك حتي صارت كالجلد الغليظ واجمعوا على جواز المسح عليها بطريق الدلالة كما تقدم.....أن ماكان رقيقا لايجوز المسح عليه اتفاقا إلا أن يكون مجلدا أو منعلا أو مبطنا."

(شرح المنية، فصل في المسح على الخفين، ص:116، ط: سهيل اكيڈمي لاهور)

فتح القدير میں ہے:

"لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير."

 (كتاب الطهارة، باب المسح علي الخفين، ج:1، ص:157، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں