کیا وفات کے بعد مرنے والے کی روح چالیس دن تک اپنے گھر آتی رہتی ہے اور اپنے کھانے پینے کا بھی سوال کرتی ہے ؟
واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ سےانسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کےمقام سے متعلق یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نیک لوگوں کی ارواح کو "علیین" میں لے جایا جاتا ہے، اورکافر اور مشرکوں کی ارواح "سجین" میں پہنچائی جاتی ہیں، اور ارواح کا علیین اور سجین میں ہونے کے باوجود مردوں کو قبر میں دفن کرنے کے بعد ان کے اجسام کے ساتھ ایک نوع کا تعلق اور اتصال رہتا ہے، اور انتقال و دفن کرنے کے درمیان کے عرصہ میں ارواح فرشتےکے قبضے میں رہتی ہیں اور قبر میں رکھنے کے بعد روح کو واپس کر دیا جاتا ہے۔
لہذا کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی روح کے بارے میں چالیس دن گھر میں آنا یا چکر لگانا بے اصل اور من گھڑت عقیدہ ہے، کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر کوئی شرعی دلیل موجود ہے، نیز مذکورہ عقیدہ کا بطلان عقل سے بھی سمجھ میں آتا ہے؛ کیوں کہ میت اگر جہنمی ہے اور عذاب میں گرفتار ہے، تو اس کی روح کا عذاب سے چھوٹ کر آنا کیوں کر ممکن ہے؟ اور فرشتے اس کو کیوں چھوڑسکتے ہیں؟ اور اگروہ جنتی ہے تو دنیا کی فانی و مادی چیزوں کی تلاش میں وہ کیوں آئے گی؟ جیسا کہ اس بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کسی مردہ روح کا جیسا کہ عوام میں مشہور ہے کسی پر آنا صحیح نہیں معلوم ہوتا، گو کہ بعض آثار سے ایسا شبہ ہوتا ہے؛کیوں کہ قرآن میں ہے کہ کا فربعد موت کے کہتا ہے "رب ا رجعون لعلی اعمل صالحاً فيما تركت كلا انها كلمة هو قائلها و من ور ائهم برزخ الی یوم یبعثون" اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موت اور قیامت کے مابین وہ ایسی حالت میں رہتے ہیں کہ دنیا میں آنے کی تمنا ہوتی ہے، لیکن برزخ یعنی حائل دنیا میں آنے سے باز رکھتا ہے۔ اور عقلاً بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لپٹنے پھر نے کی ضرورت کیا ہے اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دو سروں کو لپٹتا پھرے۔“(اشرف الجواب، ص:120، حصہ:دوم، ط:کتب خانہ محمودیہ دیوبند)
قرآنِ مجید میں ہے:
"اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ (سورةالزمر، الأية:42)
”ترجمہ: اللہ تمام روح کو ان کی موت کے وقت قبض کرلیتا ہے، اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی، ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں (قبض کرلیتا ہے، ) پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے، اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے یقینا اس بات میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔ “
تفسیر مظہری میں ہے:
"قلنا: وجه التطبيق أنّ مقرّ أرواح المؤمنين في عليين أو في السماء السابعة و نحو ذلك كما مر و مقرّ أرواح الكفار في سجين، و مع ذلك لكل روح منها اتصال لجسده في قبره لايدرك كنهه إلا الله تعالى."
(التفسیر المظھری، 225/10، ط: حافظ کتب خانہ کوئٹہ)
كتاب الروح میں ہے:
"وقال کعب: أرواح الموٴمنین في علیین في السماء السابعة وأرواح الکفار في سجین في الأرض السابعة تحت جند إبلیس."
(کتاب الروح، المسئلة الخامسة عشرة، این مستقر الأرواح ما بین الموت إلی یوم القیامة، ص:91، دارالكتب العلمية)
شرح الصدور بشرح حال الموتٰى والقبور میں ہے:
"عن حذيفة قال: الروح بيد ملك وإن الجسد ليغسل وإن الملك ليمشي معه إلى القبر فإذا سوي عليه سلك فيه فذلك حين يخاطب، وأخرج البيهقي عن حذيفة قال: إن الروح بيد الملك والجسد يقلب فإذا حملوه تبعهم فإذا وضع في القبر بثه فيه، أخرج إبن أبي الدنيا عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: الروح بيد ملك يمشي به في الجنازة يقول له: اسمع ما يقال لك، فإذا بلغ حفرته دفنه معه، وأخرج عن ابن أبي نجيح قال: ما من ميت يموت إلا وروحه في يد ملك ينظر إلى جسده كيف يغسل وكيف يكفن وكيف يمشي به إلى قبره ثم تعاد إليه روحه فيجلس في قبره."
وفیه أیضاً:
"وقال الحافظ إبن حجر في فتاويه: أرواح المؤمنين في عليين وأرواح الكافرين في سجين ولكل روح بجسدها إتصال معنوي لايشبه الإتصال في الحياة الدنيا بل أشبه شيء به حال النائم وإن كان هو أشد من حال النائم إتصالا قال وبهذا يجمع بين ما ورد أن مقرها في عليين أو سجين وبين ما نقله إبن عبد البر عن الجمهور أيضا أنها عند أفنية قبورها قال ومع ذلك فهي مأذون لها في التصرف وتأوي إلى محلها من عليين أو سجين قال وإذا نقل الميت من قبر إلى قبر فالإتصال المذكور مستمر وكذا لو تفرقت الأجزاء إنتهى قلت ويؤيد كون المقر في عليين ما أخرجه إبن عساكر من طريق إبن إسحاق قال حدثني الحسين بن عبيد الله عن إبن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعد قتل جعفر: لقد مر بي الليلة جعفر يقتفي نفرًا من الملائكة له جناحان متخضبة قوادمها بالدم يريدون بيشة بلدًا باليمن."
(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور، المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ) صفحہ: 100 و 239، ط: دار المعرفة - لبنان)
جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:
’’سوال:انتقال کے بعد میت کی روح قبر میں لوٹائی جاتی ہے یا نہیں؟ اور گھر میں چالیس دن تک روح رہتی ہے یا نہیں؟
جواب:انتقال کے بعد میت کی روح قبر میں آتی ہے، بکثرت احادیثِ صحیحہ اس پر دال ہیں، البتہ گھر میں روح کا چالیس دن تک آنا ثابت نہیں۔ فقط واللہ اعلم“
کتبہ: ولی حسن ٹونکی (8/4/1397)
سوال:کیا مرنے کے بعد مؤمن کی روح کو علیین میں جانے کے بعد دنیا میں آنے کی آزادی ہے یا نہیں؟
جواب:مؤمن کی روح کا دنیا آنا جانا آزادی سے ثابت نہیں، روایتِ صحیحہ، آثارِ صحابہ، اقوالِ تابعین، تصریحاتِ فقہاءِ کرام، کہیں سے ثابت نہیں۔ البتہ بعض صحابہ اور حضرت سلمان فارسی وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اتنا ثابت ہے کہ مؤمن کی روح کو برزخ میں آزادی حاصل ہے، جہاں چاہے جاسکتی ہے ۔۔۔ الخ“
کتبہ: احمد الرحمٰن غفرلہٗ (22/2/1383)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
’’بہت سے علماء کی زبانی سنا ہے کہ جمعرات کو روح اپنے اقرباء کے گھر آتی ہے اور ثواب کی امیدوار ہوتی ہے اور جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتی ہے، یہ صحیح ہے یا نہیں؟
الجواب: یہ کچھ تحقیقی بات نہیں، فقط‘‘.
(فتاوی دار العلوم دیوبند، کتاب الجنائز 5 / 315 ط: دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن