کیا ایسے لوگوں کا نمازِ جنازہ پڑھنا جائز ہے جو نظریاتی طور پر مارکسسٹ ہوں اور خدا کے یعنی اللہ سبحان و تعالیٰ کے وجود سے انکار اور سائنس کو دنیا کا خالق مانتے ہوں؟ نیز کچھ لوگ یہ گمان رکھتے ہیں کہ اللہ جانے آخری لمحات میں توبہ کر گیا ہو؟ تفصیلی جواب کا منتظر ہوں؛ تاکہ عوام الناس کو گم راہی سے بچایا جائے۔ نیز مرتد کا جنازہ پڑھنے والوں کی سزا و معاملات پر بھی روشنی ڈالیں!
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص نظریاتی طورپر مارکسٹ ہو اور اللہ کے وجود کا منکر ہو اور سائنس کو دنیا کا خالق مانتا ہواور اس پر زبانی یا تحریری اقرار کا ثبوت بھی موجود ہو، تو ایسے آدمی کی نماز جنازہ پڑھنا ناجائز اور حرام ہے،قرآن کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے،اللہ تعالی نے واضح الفاظ میں منع فرمایا ہے:
قرآن مجید میں ہے:
{وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ} (التوبھ۔84)
روح المعانی (154/10):
"و المراد من الصلاۃ المنهي عنها صلاۃ المیت المعروفة، و هي متضمنة للدعا والاستغفار والاستشفاع."
اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی مرتد کے جنازے میں شریک ہوتا ہے تواس کی دو صورتیں ہیں:
اگرجائز سمجھ کر جنازہ کی نماز پڑھتا ہے تو تجدید ِ ایمان کے ساتھ ساتھ شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی ضروری ہوگا، اور اگر جائز سمجھ کر نہیں، بلکہ برادری کے دباؤ کی وجہ سے پڑھتا ہےتو توبہ استغفار کرنا لازم ہوگا۔
اوراگرکوئی شخص سیاست کے اعتبارسے مارکسٹ ہے ،لیکن اس کے عقائداور نظریات صحیح ہیں تو ایسے مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھنالازم ہے، البتہ جنازے میں عام آدمی شرکت کریں،مقتدالوگ شرکت نہ کریں۔
"و منها: أن استحلال المعصیة صغیرةً کانت أوکبیرةً کفر…" الخ
(شرح فقه الأکبر : ١٥٢)
"من قتل نفسه یغسل و یصلی علیه، قال الحجّة: و هو الصحیح؛ لأنه مؤمن مذنب، فصار کغیرہ من أصحاب الکبائر."
(الفتاوى التاتارخانیة، کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني و الثلاثون من یصلی علیه ومن لایصلی، زکریا ۳/۵۶، رقم:۳۷۰۸، کوئٹہ ۲)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 210):
"(وهي فرض على كل مسلم مات خلا) أربعة (بغاة، وقطاع طريق) ... (وكذا) أهل عصبة و (مكابر في مصر ليلًا بسلاح وخناق) خنق غير مرة فحكمهم كالبغاة. (من قتل نفسه) ولو (عمدًا يغسل ويصلى عليه) به يفتى، وإن كان أعظم وزرًا من قاتل غيره. ... (لا) يصلى على (قاتل أحد أبويه) إهانة له، وألحقه في النهر بالبغاة."
واضح رہے کہ جو خدا کے وجود کا منکر ہو شرعًا وہ کافر ہے، اور جس شخص کے بارے میں یہ یقین ہو کہ اس کا یہ نظریہ ہے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور ان کے حق میں فاتحہ پڑھنا یا فاتحہ کے لیے جانا حرام ہے، نیز جب تک آخری لمحات میں اس کے توبہ کرنے کا کوئی ثبوت نہ ہو، یہی حکم ہے، مسلمانوں کے لیے اس کی جنازہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں، قرآن کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے ،اور اگر کوئی باوجود یہ معلوم ہونے کے جنازہ میں شرکت کرے وہ سخت گناہ گار ہے، اس کو علی الاعلان اپنے اس فعل پر استغفار لازم ہے ، ملحوظ رہے کہ غیر مسلم کی نمازِ جنازہ کو جائز سمجھنا کفر ہے؛ کیوں کہ کفر کی حالت میں مرنے والے شخص کے لیے دعاءِ مغفرت سے قرآنِ کریم میں منع کیا گیا ہے۔
"و الحق حرمة الدعاء بالمغفرة للكافر."ه
روح المعانی (154/10):
"و المراد من الصلاۃ المنهي عنها صلاۃ المیت المعروفة، و هي متضمنة للدعا والاستغفار والاستشفاع."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 200098
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن