میرا ایک دوست دبئی میں ہوتاہے،وہ آن لائن چیزیں فروخت کرتاہے،اس نے ہم کچھ دوست جو پاکستان میں ہیں،ان کو اس کام کی ترغیب دی اور کہا آپ فیس بک آئی ڈی بناؤ، اور اس میں location دبئی کی ڈالنا اور مارکیٹ ریٹ پر چیزیں بیچو، اور کسٹمر بناؤ ،کسٹمر کا فون نمبر اور اس کی location اس سے لو،جب وہ آڈر کنفرم کردے، پھر فون نمبر اور location اس دبئی والے دوست کو ہم بھیج دیں گے، اور وہ ان تک آڈر کی چیز بھیج دےگا۔
اس کے بعد وہ دبئی والا دوست اس پر مجھے کمیشن دے گا، جو کہ ہمارے درمیان طے نہیں ہوا ، اور طے ہونے کی صورت میں کیا ہو گا؟
اسی طرح آج کل بعض Apps اور ہیں، طریقہ کار وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا،اس بارے میں کیا حکم ہے ؟کیا یہ کمیشن لینا شرعا جائز ہے؟
صورت مسئولہ میں سائل کا اپنے دبئی والے دوست کے لئے کمیشن / اجرت کے عوض مارکیٹنگ کر نا اور کسٹمر بنانا شرعا درست ہے ،البتہ کام کی نوعیت اور کمیشن /اجرت پہلے سے متعین کرنا ضروری ہے،یعنی اس بات کی تعیین پہلے ضروری ہے کام کس طریقہ پر ہوگا اور کمیشن کتنا ہوگا،بغیر تعیین کے معاملہ کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔
نیز یہ بھی ضروری ہے کہ جس چیز کی مارکیٹنگ کی جارہی ہو، اس میں خلاف شرع کوئی بات نہ ہو،شرعا اس کی خرید و فروخت صحیح ہو۔
فتاوی شامی میں ہے :
"تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم، وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا؛ لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام، وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجًا ينسج له ثيابا في كل سنة."
( کتاب الاجارۃ باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد 6 / 63 / ط : دار الفکر بیروت )
و فیه أیضا:
"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية قوله (فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا لأنه لا وجه له ۔"
( کتاب البیوع، جلد 4 / 560 ، ط : دار الفکر بیروت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101283
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن