بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مارکیٹنگ کمپنیوں کی ادویات فروخت کرنا


سوال

 مارکیٹنگ کمپنیوں کی دواؤں کا ہول سیل کاروبار کرنا کیسا ہے ؟

مارکیٹنگ کمپنیوں کی دواؤں کی تفصیل :  دراصل مارکیٹنگ کمپنیوں کی دوائیں ہمیں بہت سستے ریٹس پر ملتی ہیں ۔ مثلاً ایک دوا ایک بہت بڑی نامی گرامی کمپنی کی ہے جس کا ریٹ 300 روپے ایک ڈبی کا ہے اور اس ڈبی میں پندرہ گولیاں ہیں,  اب وہی دوا مارکیٹنگ کمپنی کی ہمیں 50 روپے فی ڈبی کے حساب سے ملتی ہے لیکن مارکیٹنگ کمپنی کی ڈبی پر بھی اس دوا کی رٹیل قیمت 300 روپے ہی درج ہوتی ہے,  اب ہم اپنے گاہکوں کو وہ دوا 70 روپے ڈبی کے حساب سے سیل کر رہے ہیں اور ہمارے گاہک وہ دوا 100 روپے کے حساب سے میڈیکل اسٹور والے کو سیل کر رہے ہیں میڈیکل اسٹور والا وہ دوا ایک بڑی اور نامور کمپنی کی قیمت والے داموں میں ہی عوام کو فروخت کرتا ہے یا بڑی کمپنیوں کی نسبت کچھ 10,  20 روپے کی مزید رعایت کر دیتا ہے لیکن عوام تک وہ دوا تقریباً بڑی کمپنیوں والے داموں میں ہی فروخت ہوتی ہے ۔ اور بڑی نامور کمپنی کی دواؤں کی تاثیر اور مارکیٹنگ کمپنی کی تاثیر میں کچھ نہ کچھ فرق بھی ہوتا ہے,  بڑی کمپنی کی دوا سے مریض جلد صحت یاب ہو جاتا ہے، کیوں  کہ اس کا معیار بہت اعلیٰ ہوتا ہے ۔ وہ بننے کے بعد مختلف مراحل میں چیک ہونے کے بعد مارکیٹ میں آتی ہے ۔

کیا صورت مسئولہ میں مارکیٹنگ کمپنیوں کا ہول سیل کام کرنا ہمارے لیے جائز ہو گا کیوں کہ ہم اس دوا کو 50 روپے میں خرید کر 70 روپے میں فروخت کر رہے ہیں،  اب آگے کے لوگ اسے لکھی ہوئی قیمت میں فروخت کریں یا نہ کریں،  ان سے ہمارا واسطہ نہیں،  کیا یہ کاروبار جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ دوائیں مفید ہوں،  مضرِّ صحت نہ ہوں، ادویات کے قانونی معیار پر پورا اترتی ہوں،  اور ان کا مستقل اپنا الگ نام ہو،  کسی برانڈ کے نام پر جعل سازی نہ ہو تو ایسی صورت میں سائل کے لیے ان ادویات کو فروخت کرنا جائز ہوگا، اور اگر یہ شرائط نہ پائیں جائیں تو مذکورہ ادویات کو فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميًا قتالًا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية فإن استعمال القليل منها جائز، بخلاف القدر المضر فإنه يحرم."

 (4 / 42،  كتاب الأشربة، ط: سعيد)

الأشباه والنظائر لابن نجيم میں ہے:

"القاعدة الخامسة: الضرر يزال۔أصلها قوله عليه الصلاة والسلام {لا ضرر ولا ضرار} أخرجه مالك في الموطإ عن عمرو بن يحيى عن أبيه مرسلا، وأخرجه الحاكم في المستدرك والبيهقي والدارقطني من حديث أبي سعيد الخدري، وأخرجه ابن ماجه من حديث ابن عباس وعبادة بن الصامت رضي الله عنهم.وفسره في المغرب بأنه لا يضر الرجل أخاه ابتداء ولا جزاء (انتهى)."

(ص: 42، القاعدة الخامسة، الفن الاول في القواعد الکلیة، ط: سعید)

فقط والله أ علم


فتوی نمبر : 144401100676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں