ایک چیز میں نے 965 کی لی تھی، میں اسکو 980 میں سیل کرتا ہوں۔ اگلے دن اسی چیز کی مارکیٹ جو میں نے 965 کی لی تھی اچانک سے اس کا ریٹ 1100 ہو گیا یعنی اس چیز کی مارکیٹ 1100 ہو گئی تو اس کو میں 1160 میں بیچ سکتا ہوں کہ نہیں کیونکہ میرے پاس پرانامال اسٹوک تھا جو میں نے سستا لیا تھا تو اسکو مہنگا بیچنا کیسا ہے ایسا کرنا جائز ہے؟
صورت مسئولہ میں جب مذکورہ چیز کا مارکیٹ ریٹ 1100 روپے ہوگیا ہے تو سائل کے لیے اس ریٹ میں بیچنا جائز ہے اور کمائی بلا کراہت حلال ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - إذا زاد زيادة لا يتغابن الناس فيها فإني لا أحب أن يبيعه مرابحة حتى يبين."
(کتاب البیوع باب الرابع عشر ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۶۱،دار الفکر)
فتح القدیر میں ہے:
"والذي لا يتغابن الناس فيه ما لا يدخل تحت تقويم المقومين، وقيل في العروض " ده نيم " وفي الحيوانات " ده يازده " وفي العقارات " ده دوازده ")
والذي لا يتغابن الناس فيه لا يدخل تحت تقويم المقومين) هذا لفظ القدوري في مختصره. ويفهم منه أن مقابله مما يتغابن فيه. قال في الذخيرة: تكلموا في الحد الفاصل بين الغبن اليسير والغبن الفاحش، والصحيح ما روي عن محمد - رحمه الله - في النوادر أن كل غبن يدخل تحت تقويم المقومين فهو يسير، وما لا يدخل تحت تقويم المقومين فهو فاحش. قال: وإليه أشار في الجامع في تعليل مسألة الزكاة."
(کتاب الوکالۃ، فصل فی الوکالۃ بالبیع ج نمبر ۸ ص نمبر ۴۸،شركۃ مكتبۃ ومطبعۃ مصفى البابی الحلبی وأولاده بمصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101467
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن