بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مارکیٹ میں رائج بیع قبل القبض وغیرہ کا حکم اور ان کی درستگی کا شرعی طریقہ


سوال

ہمارا تعلق کوکنگ آئل کے کاروبار سے ہے ۔ بازار میں رائج مختلف طریقوں کا حکم معلوم کرنا مقصود ہے ۔

بنیادی طور پر ہمارے ہاں تین طبقات ہیں ۔

1- امپوٹر یا آئل ریفائنریز جو پام آئل یا کوکنگ آئل بیچتی ہیں۔

2- آئل ڈپو یا گھی ملز جو بازار سے پام آئل یاکوکنگ آئل خریدتی ہے۔

3 - مذکورہ بالا دو طبقوں کے در میان ٹریڈریا مڈل مین تا جر ہوتے ہیں ۔

پہلے مڈل مین جو معاملات کرتے ہیں ،ان سے متعلقہ امور ذکر کیے جاتے ہیں:

(الف) مڈل مین امپوٹر سے مال خریدتے ہیں اور پھر گھی مل یا آئل ڈپو کو فروخت کرتے ہیں۔ مڈل مین کے پاس مال رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی وہ جب امپوٹر سے مال خریدتے ہیں تو وہ مال امپوٹر کے پاس ہی رہتا ہے ۔ اسی حال میں مڈل مین یا ٹریڈر اس کو فروخت کر دیتے ہیں پھر مال کی ڈیلیوری اس طرح ہوتی ہے کہ ٹریڈر جب گھی مل کو سودا بیچ دیتا ہے تو گھی مل اپنے کسی ٹرانسپورٹ سے آئل ٹینکر کرایہ پر لے کر ٹریڈر سے مال کا مطالبہ کرتے ہیں، ٹریڈر حضرات اس ٹرانسپورٹ کو امپوٹر کے آئل ٹرمینل بھجوا دیتے ہیں ،جہاں امپوٹر کا مال رکھا ہے اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال اس گاڑی والے کو دے دیں ۔ یوں امپوٹر کی طرف سے تاجر کا مال اس گاڑی میں لوڈ ہوتا ہے اور تاجر اپنے پاس لوڈ کر لیتے ہیں کہ فلاں امپوٹر سے اتنا مال وصول ہو گیا اور فلاں گاہک جو گھی مل والا ہے اس کو اتنامال ڈیلیور ہو گیا ۔

واضح رہے کہ مڈل مین ٹریڈرنے اس پورے عمل میں اس مال پر حسی قبضہ تو کیا ہی نہیں اور نہ ہی اس کی  جانب کسی مرحلے میں اس مال کا ضمان منتقل ہوا ، کہ کسی مرحلہ میں مال کی ہلاکت مڈل مین تا جر کا نقصان شمار ہو البتہ تاجر کے نام سے ، امپوٹر ز بانی تحریرDOدے دیتا ہے کہ فلاں تاجر کو اتنا مال دے دیا جائے، اب خود گاڑیاں لگوا کر اسے اٹھوالے اور کہیں اتروا دے یا اپنے ہی کسی گاہک کومال بیچ کر اسی کی گاڑیوں میں مال لوڈ کروا لے۔

( ب ) اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ امپورٹر سے پہلے ایک تاجر مال خریدتا ہے اور دوسرے تاجر کو سودا فروخت کر دیتا ہے پھر کبھی یہ دوسرا تاجر بھی اپنا نفع رکھ کر کسی تیسرے تاجر کو سودا بیچ دیتا ہے پھر بھی یہ سلسلہ چار ، پانچ ، چھ تاجروں میں بھی چلتا ہے پھر آخری تاجر کسی گھی مل یا آئل ڈ پو والے کو بیچ دیتا ہے ۔

اب گھی مل والے اپنے مال تاجر سے مال کی ڈیلیوری کا تقاضہ کرتا ہے تو یہ آخری تاجر اپنے بائع تاجر سے ڈیلیوری کا تقاضہ کرتا ہے ،اسی طرح امپورٹر تک مال کے حوالے ہوتے رہتے ہیں بالآخر آئل ڈپو یاگھی مل والے کی گاڑی امپوٹر کے ٹرمینل پر جاتی ہے اور وہ مال لوڈ کر دیا جاتا ہے اس طرح درمیان کے تمام تاجروں کا سودا ڈیو ہو جاتا ہے مثلا :

امپوٹر نے زید کو بیچا ، زید نے عمر کو بیچا ، عمرنے بکر کو بیچا، بکر نے خالد کو بیچا ۔ خالد نے گاڑی بھیجی اور بکر سے مال کا مطالبہ کیا ، بکر نے کہا کہ یہ مال عمر سے لے لو، جب عمر سے مال مانگا گیا تو اس نے کہا کہ یہ مال زید سے لے لو جب زید سے مانگا گیا تو اس نے کہا کہ یہ مال فلاں امپوٹر کے آئل ٹرمینل پر بھیج دو اور وہاں زید کہتا ہے کہ میرا مال اس گاڑی میں لوڈ کر دیں ۔

اس صورت میں بھی کسی کا قبضہ نہیں آتا اور نہ  ضمان منتقل ہو تا ہے تمام مڈل مین حضرات نے صرف مال کے حوالے کیے ،البتہ آخری صارف نے مال پر قبضہ کیا ۔ مال کا ضمان یا تو امپوٹر کے قبضہ میں تھا، اب گاڑی لوڈ ہو جانے کے بعد آخری صارف ( جو مثال میں خالد ہے ) کے ذمے ہے ۔

سوالات :

۱۔اس قسم کے معاملات کا کیا حکم ہے اور ان سے حاصل ہونے والے نفع  کا کیا حکم ہے ؟

۲۔کیا مڈل مین تاجر کی اس مال پر قبضہ اور ضمان میں آنے کی کوئی صورت ہے ؟ کیونکہ اگر یہ حضرات مال اٹھاکر کہیں رکھوائیں تو آمدنی سے زیادہ کرایہ اور خرچہ لگ جائے گا ۔

۳۔کیا کئی تاجر جب درمیان میں ہوں جیسے کہ مثال سابق میں ذکر ہو چکی تو ان سب کا قبضہ و ضمان ثابت ہونے کی بھی کوئی صورت ہے ؟

۴۔کیا صرف تاجر کا امپوٹر سے یہ کہہ دینا کہ " میں اپنے خریدے ہوئے مال کا ضامن ہوں جو آپ کے پاس رکھا ہے‘‘ اس سے قبضہ و ضمان ثابت ہو جائے گا ؟

واضح رہے کہ یہ کام ہول سیل میں بڑی مقدار میں ہوتا ہے، مثلا عمومًا ایک سودا 30 ٹن کا ہوتا جو ایک گاڑی کا مال ہے روزانہ بازار میں 50 سے 100 گاڑیوں کے مال کی خرید و فروخت عام معمول ہے ،کبھی اس سے کم اور کبھی اس سے بہت زیادہ مقدار کے سودے ہوتے ہیں۔

۵۔ایسی صورتحال میں قبضہ و ضمان ہر ہر تاجر کیسے حاصل کرے اس کی شرعی رہنمائی  درکار ہے  ؟

۶۔کیا تاجروں کا یہ کہنا  درست  ہے  کہ " ہم مال کے نفع نقصان کے ضامن ہیں تو ضمان اور رسک کےبھی معاملے کے جائز ہونے کیلئے کافی ہے ‘‘ کیونکہ مال کے ریٹ بڑی تیزی سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں، کوئی تاجرصبح  ایک سودا لیتا ہے اور شام تک اس میں ہزاروں یا لاکھوں  روپے کا نفع یا نقصان ہو جاتا ( ریٹ کے تیزی سے بار بار کم و بیش ہونے کے سبب ) ہے۔

نیز تاجروں کا یہ خیال کہ  اپنے بائع کو پورے پیسے دینے کے ہم ذمے دار ہیں، چاہیں خریدار سے ملیں یانہ ملیں یہ بھی تو رسک اور ضمان ہے، کیا یہ بات شرعًا ضمان کی شرط کیلئے کافی ہے؟

جواب

 1۔صورت مسئولہ میں جب مڈل مین تاجر ،امپورٹر یا آیل ریفائنریز سے مال خریدنے کے بعد قبضہ کے بغیر آگے کسی تیسرے شخص(ملز وغیرہ) کو   بیچتا ہے تو اس قسم کے معاملات کا حکم  بیوعات فاسدہ کا ہے،ایسی صورت میں بائع اور مشتری دونوں  پر لازم ہیں مذکورہ معاملہ کو فسخ(ختم) کر کے نئے سرے سےمعاملہ  کریں، اگر اس قسم کے معاملہ کوکسی بھی وجہ سے ختم نہ کیا جائے تو بائع (امپورٹر)کے لئے  نفع حلال  ہوگا، کیوں کہ وہ مالک اور قابض ہے،البتہ مشتری (مڈل مین/تاجر)نے مبیع کو آگے فروخت  کر کے نفع کمایاتو مشتری ثانی(آئل ڈپو/کمپنی کے مالکان) اس کا مالک  ہوجائے گا ،لیکن مشتری اول(مڈل مین/تاجر)پر حاصل ہونے والے نفع کو صدقہ کرنا لازم ہوگا،کیوں کہ اس نے قبضہ سے پہلے فروخت کیا ہے۔

2۔مال پر مڈل مین تاجر کے قبضے اور  اس کے ضمان میں آنے کی  صورت یہ ہوسکتی ہے کہ تاجر خود یا اس کا وکیل امپورٹر کی جگہ جائے اور امپورٹر، مڈل مین کا مال اپنے مال سے  الگ کر کے  رکھ دےاور وہ(مڈل مین) خود یا اس کا وکیل  مال اپنی تحویل میں لے لے،اسے اختیار ہو کہ جب چاہے اپنا مال اٹھا لے، تو ایسی صورت میں تاجر کا قبضہ اور ضمان ثابت ہوجائے گا،اگر چہ پھر مال اسی جگہ رکھا رہے،یا مڈل مین تاجر، ملز وغیرہ کےمالکوں کو مال فروخت نہ کریں،بلکہ بیع کا وعدہ کریں،اور مال، گاڑی پر حوالہ کرتے وقت مڈل مین تاجر یا اس کا وکیل متعینہ مال حوالہ کردیں تو بھی معاملہ جائز ہوگا یعنی قبضہ بھی صحیح ہوجائے گا اور بیع بھی صحیح ہوجائے گی۔

3۔کئی تاجر درمیان میں ہونے کی صورت میں بھی  تاجر اول کے لیے مبیع پر قبضہ آنے سے پہلے مال  آگے  فروخت کرنا درست نہیں ہے، اس کے صحیح ہونے کی صورت بھی یہی ہے کہ پہلے تاجر اول مال شق نمبر 2 میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق  اپنی تحویل میں لے لے اور پھر تاجر ثانی کو فروخت کرے،پھراسی طرح تاجر ثانی مذکورہ طریقے کے مطابق مال اپنی تحویل میں لے کر تاجر ثالث کوفروخت کرے۔

4۔صرف تاجر کا امپورٹر کو یہ کہہ دینے سے کہ "میں اپنے خریدے ہوئے مال کا ضامن ہوں جو آپ کے پاس رکھا ہے" تاجر کا قبضہ اور ضمان ثابت نہیں ہوگا۔

5-6۔اس کا جواب شق نمبر تین اور چار میں آگیا ہے۔

سنن  ابی داؤد میں ہے:

"حدثني عمرو بن شعيب، حدثني أبي، عن أبيه حتى ذكر عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل سلف وبيع، ولا شرطان في بيع، ولا ربح ما لم تضمن، ولا بيع ما ليس عندك۔"

(اول کتاب البیوع،باب فی الرجل ما لیس عندہ،5/364،ط:دار الرسالۃ العالمیۃ)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله۔"

(کتاب البیوع،باب بطلان بیع المبیع قبل القبض،5/7،ط:دار الطباعۃ العامرۃ)

درر الحکام فی  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"أما إذا سلم البائع المبيع إلى شخص أمر المشتري بتسليمه إليه فقد حصل القبض كما لو سلم البائع المبيع إلى المشتري نفسه فإذا أمر المشتري البائع قبل القبض بتسليم المبيع إلى شخص معين وسلم البائع المبيع إلى ذلك الشخص يكون المشتري قد قبض المبيع۔"

(الکتاب الاول البیوع،الباب الخامسفي بيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم ،الفصل الاول،1/ 249،ط:دار الجلیل)

  درر الحکام فی  شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 273) كيل المكيلات ووزن الموزونات بأمر المشتري ووضعها في الظرف الذي هيأه لها يكون تسليما.... إن سبب إسناد الإعطاء في المجلة إلى المشتري أنه إذا وزن المبيع أو كيل بأمر المشتري ووضع في الظرف الذي هيأه البائع لا يكون ذلك تسليما كما أنه إذا قبض البائع المبيع بأمر المشتري وتوكيله لا يكون صحيحا ولا يحصل بذلك تسليم...لا ينبغي أن يفهم من عبارة (الظرف والإناء الذي هيأه المشتري) أنه يشترط أن يكون الظرف والإناء ملكا للمشتري لأن المشتري إذا استعار الظرف من البائع وأمر البائع بكيل المكيل أو وزن الموزون ووضعه في الإناء وعمل البائع بذلك فإذا كان الظرف المذكور معينا حين الاستعارة فمقتضى المادة السابقة إن ذلك قبض للمبيع۔"

(الكتاب الأول البيوع،الباب الخامس في بيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم،الفصل الأول في بيان حقيقة التسليم والتسلم وكيفيتهما،1/ 256،ط:دار الجیل)

محيط برہانی میں ہے:

"أن الوكيل بالقبض يقبض بحكم الآمر۔"

(کتاب الصرف،الفصل الثانی عشر،7/ 201،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا قبض المشتري المبيع برضا) عبر ابن الكمال بإذن (بائعه صريحا أو دلالة...في البيع الفاسد)...(ولم ينهه) البائع عنه ولم يكن فيه خيار شرط (ملكه)... (بمثله إن مثليا وإلا فبقيمته)

(قوله ملكه)أي ملكا خبيثا حراما فلا يحل أكله ولا لبسه إلخ قهستاني. وأفاده أنه يملك عينه، وهو الصحيح المختار۔"

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،5 /90-88،ط:سعید)

فتاوی شامی ہے:

"(فإن باعه) أي باع المشتري المشترى فاسدا (بيعا صحيحا باتا)...(لغير بائعه)...(بعد قبضه)... نفذ البيع الفاسد في جميع ما مر وامتنع الفسخ لتعلق حق العبد به... (و) إنما (طاب للبائع ما ربح) في الثمن...(لا) يطيب (للمشتري) ما ربح في بيع يتعين بالتعيين بأن باعه بأزيد لتعلق العقد بعينه فتمكن الخبث في الربح فيتصدق به

(قوله في بيع يتعين بالتعين)أراد بالبيع المبيع، وأشار بقوله يتعين بالتعين كالعبد مثلا إلى وجه الفرق بين طيب الربح للبائع لا للمشتري، وهو أن ما يتعين بالتعين يتعلق العقد به فتمكن الخبث فيه، والنقد لا يتعين في عقود المعاوضة، فلم يتعلق العقد الثاني بعينه، فلم يتمكن الخبث فلا يجب التصدق كما في الهداية، وإنما لم يتعين النقد؛ لأن ثمن المبيع يثبت في الذمة، بخلاف نفس المبيع؛ لأن العقد يتعلق بعينه،

(قوله بأن باعه بأزيد)تصوير لظهور الربح فلا يطيب له ذلك الزائد عما اشترى به، وأفاد أن ذلك في أول عقد. وأما إذا أخذ الثمن واتجر وربح بعده أيضا يطيب له لعدم التعين في العقد الثاني كما نبه عليه ط، وهو ظاهر مما مر۔"

(كتاب البيوع،باب البيع الفاسد،ج:5 ص:97-92،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:  

"(وأما) بيان ما يتعلق بهما من الأحكام

(فمنها) : أنه لا يجوز التصرف في المبيع المنقول قبل القبض بالإجماع، وفي العقار اختلاف...لما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه «نهى عن بيع ما لم يقبض

(ومنها) أنه لا يجوز بيع ما ليس عند البائع إلا السلم خاصة لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم۔"

(كتاب البيوع،فصل:وأما حكم البيع،5/ 235،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والتخلية في بيت البائع صحيحة عند محمد - رحمه الله تعالى - خلافا لأبي يوسف - رحمه الله تعالى - رجل باع خلا في دن في بيته فخلى بينه وبين المشتري فختم المشتري على الدن وتركه في بيت البائع فهلك بعد ذلك فإنه يهلك من مال المشتري في قول محمد وعليه الفتوى هكذا في الصغرى."

(کتاب البیوع،الباب الرابع،الفصل الثانی،3/ 16،ط:رشیدیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن كانت يد المشتري يد أمانة كيد الوديعة، والعارية لا يصير قابضا إلا أن يكون بحضرته، أو يذهب إلى حيث يتمكن من قبضه بالتخلي؛ لأن يد الأمانة ليست من جنس يد الضمان فلا يتناوبان۔"

(کتاب البیوع،فصل فی حکم البیع،5/ 248،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم التسليم يكون بالتخلية على وجه يتمكن من القبض بلا مانع ولا حائل. وشرط في الأجناس شرطا ثالثا وهو أن يقول: خليت بينك وبين المبيع فلو لم يقله أو كان بعيدا لم يصر قابضا والناس عنه غافلون، فإنهم يشترون قرية ويقرون بالتسليم والقبض، وهو لا يصح به القبض على الصحيح۔"

(کتاب البیوع،مطلب فیمایکون قبضا للمبیع4/ 561،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں