بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مارکیٹ کو مسجد کے لیے وقف کرنا


سوال

ایک آدمی نے تقریباً10 مرلے کی مارکیٹ اور دکانیں مسجد کے لیے وقف کردی ہیں،اس میں مسجد کی تعمیر اس صورت میں ہورہی ہے کہ نیچے والے پورے حصے کو مسجد کی ضروریات کے لیے مثلا وضوء خانے،بیت الخلاء اور امام صاحب کے گھر وغیرہ کے لیے مختص کردیا ہے،جب کہ اوپر والی جگہ مسجد کے لیے مختص ہے،آیا یہ صورت درست ہے یا نہیں؟

اس کے علاوہ تقریبا6 مرلے کی ایک مشترک جگہ ہے جو عام لوگ گاڑیوں کی پارکنگ اور آمد ورفت کے لیے استعمال کرتے ہیں،واقف نے اِس مشترک جگہ میں سے اپنا حصہ قبل از تقسیم مسجد کے لیے وقف کردیا ہے،جب کہ باقی شرکاء نے وہ جگہ مسجد کی ضروریات میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے،وقف نہیں کی ہے،اب سوال یہ ہےکہ آیایہ جگہ مسجد شرعی کے حکم میں آسکتی ہے یا نہیں؟دوسرایہ کہ اگر باقی شرکاء آئندہ اس جگہ کو اپنی دوکان وغیرہ کے لیے جدا کرلیں تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی جگہ کوحد بندی کرکے مسجد کے لیے صرف زبانی وقف کردینے سے بھی وقف درست ہوجاتا ہے،اور وہ جگہ تا قیامت وقف رہتی ہےاور انسانوں کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے ،لیکن کسی جگہ کے شرعاً مسجد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ از ابتداء تا انتہاء مسجد ہی کے لیے مختص ہو اگر چہ اس میں نمازیں نہ ہوتی ہوں اور اس کاکوئی بھی حصہ غیر مسجد کےلیے مختص نہ ہو،اگر ایسا ہوا تو اس جگہ پر مسجدِ شرعی کا اطلاق نہیں ہوتا،اسی طرح مشترک جگہ کے وقف کے شرعاً صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  واقف اس جگہ کو بالکل الگ کرکے مطلوبہ مقصد کے لیے وقف کردے،اگر کسی مشترک جگہ کو تقسیم سے قبل مسجد یا کسی اور مقصد کے لیے وقف کیا جائے تو بالاتفاق یہ وقف درست نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں پہلی صورت یعنی جس میں واقف نے اپنی ذاتی 10 مرلہ کی مارکیٹ اور دکانوں کو مسجد کے لیے وقف کیا ہے،لیکن اس کے نچلے حصے میں مسجد نہیں ہے،تواس میں اگر چہ مذکورہ شخص کا کیا ہوا وقف درست ہے،لیکن چوں کہ اس کا نچلا حصہ غیر مسجد کے لیے مختص ہے اس لیے اس پر مسجد شرعی کا اطلاق نہیں ہوگا،اس کو مسجد شرعی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نیچے والی منزل سے بیت الخلاءاور امام صاحب کی رہائش گاہ ختم کرکے اس کوبھی نماز کی جگہ کے لیے مختص کردیا جائے،جب کہ دوسری صورت یعنی جس میں واقف نے راستہ اور پارکنگ کی مشترک جگہ کو مسجد کے لیے قبل از تقسیم وقف کیا ہے،اس میں مذکورہ شخص کا کیا ہوا وقف درست ہی نہیں ہے،اور وہ ابھی تک اس مشترک جگہ کا مالک ہے جب تک کہ اس کو بالکل علیحدہ کرکے نئے سرے سےمسجد کے لیے وقف نہ کردے،دیگر شرکاء بھی اپنی ملکیت کی جگہ کو آئندہ دیگر مقاصد میں استعمال کرسکتے ہیں۔

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(والملك يزول) عن الموقوف بأربعة بإفراز مسجد كما سيجيء.

"قوله بإفراز مسجد: عبر بالإفراز لأنه لو كان مشاعا لا يصح إجماعا."

(ص:٣٤٣،ج:٤،کتاب الوقف،مطلب في وقف المرتد والكافر،ط:ایج ایم سعید)

وفيه أيضا:

"(ولا يتم) الوقف (حتى يقبض) لم يقل للمتولي لأن تسليم كل شيء بما يليق به ففي المسجد بالإفراز وفي غيره بنصب المتولي وبتسليمه إياه ابن كمال (ويفرز) فلا يجوز وقف مشاع يقسم خلافا للثاني.

قلت: الأولى أن يحمل ما قاله أولا على مسألة إجماعية هي أن الملك بالقضاء يزول، أما إذا خلا عن القضاء فلا يزول إلا بعد هذه الشروط عند محمد واختاره المصنف تبعا لعامة المشايخ وعليه الفتوى وكثير من المشايخ أخذوا بقول أبي يوسف وقالوا: إن عليه الفتوى."

(ص:٣٤٩،ج:٤،کتاب الوقف،مطلب في وقف المرتد والكافر،ط:ایج ایم سعید)

"الفتاوي الهندية"میں ہے:

"وقف المشاع المحتمل للقسمة لا يجوز عند محمد رحمه الله تعالى ...والمتأخرون بقول أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه يجوز وهو المختار وكذا في خزانة المفتين واتفقا على عدم جعل المشاع مسجدا أو مقبرة مطلقا سواء كان مما لا يحتمل القسمة أو يحتملها."

(ص:٣٦٦،ج:٢،کتاب الوقف،الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع،ط:دار الکتب العلمیة،الطبعة الأولي)

"شرح الزيادات لقاضيخان"میں ہے:

"وعن هذا قلنا إذا جعل السفل مسجدا دون العلو، أو العلو دون السفل، أو جعل وسطَ داره مسجدا، وأذن بالصلاة فيه، أو جعل مسجدا تحته سرداب، لا يصير مسجدا."

(ص:١٥٤٨،ج:٥،کتاب الوصایا،‌‌باب ما يجوز من وصية المسلم والذمي والكافر وما يتقرب به إلى الله تعالى وما لا يجوز،ط:إدارة القرآن)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"وأجمعوا على أن من جعل داره أو أرضه مسجدا يجوز، وتزول الرقبة عن ملكه لكن عزل الطريق وإفرازه والإذن للناس بالصلاة فيه والصلاة شرط عند أبي حنيفة ومحمد، حتى كان له أن يرجع قبل ذلك، وعند أبي يوسف تزول الرقبة عن ملكه بنفس قوله: جعلته مسجدا، وليس له أن يرجع عنه على ما نذكره (وجه) قول العامة الاقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم والخلفاء الراشدين وعامة الصحابة - رضوان الله تعالى عليهم أجمعين - فإنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف، ووقف سيدنا أبو بكر، وسيدنا عمر، وسيدنا عثمان، وسيدنا علي، وغيرهم رضي الله عنهم وأكثر الصحابة وقفوا؛ ولأن الوقف ليس إلا إزالة الملك عن الموقوف وجعله لله تعالى خالصا فأشبه الإعتاق."

(ص:٢١٩،ج:٦،کتاب الوقف،ط:دارالکتب العلمیة)

"البحر الرائق"میں ہے:

"(قوله ومن جعل مسجدا تحته ‌سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره."

(ص:٢٧١،ج:٥،کتاب الوقف،ط:دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں