۱۔میں درج ذیل حدیث شریف کے بارے میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ سند کے اعتبار سے اس حدیث کاحکم کیاہے؟ اور یہ حدیث کونسی کتاب میں موجود ہے؟
"بينَ كلِّ أذانينِ صلاةٌ إلّا المغربَ".
۲۔ نیز مغرب کی نماز میں تعجیل کا حکم کون کونسی احادیث میں ہے؟
۱۔سوال میں جس روایت کے الفاظ ذکر کرکے اُس کی اسنادی حیثیت کے متعلق دریافت کیا گیا ہے، یہ روایت"الكتب الستة" ودیگر کتبِ حدیث میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔"صحيح البخاري"میں یہ روایت "عبدُ اللهِ بنُ يزيدَ، قالَ: حدّثنا كهمسُ بنُ الحسنِ عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدةَ عنْ عبدِ اللهِ بنِ مُغفّلٍ-رضي الله عنه-"کے طریق سے درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:
"قالَ النّبِيُّ -صلّى الله عليه وسلّم-: بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ، بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ، ثُمّ قالَ في الثّالثةِ: لِمَنْ شاءَ".
(صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب: بين كل أذانين صلاة لمن شاء، 1/128، رقم:627، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر دو اذانوں(یعنی اذان واقامت) کے در میان نماز ہے، ہر دو اذانوں(یعنی اذان واقامت) کے درمیان نماز ہے(یعنی ہر اذان واقامت کے درمیان نماز پڑھنا مستحب ہے)، پھر تیسر ی مرتبہ ارشاد فرمایا: یہ نماز اُس کے لیے ہے جو پڑھنا چاہے(یعنی یہ نماز پڑھنا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے)‘۔
"كشف الأستار عن زوائد البزار" میں یہ روایت "عبدُ الواحدِ بنُ غياثٍ، ثنا حيّانُ بنُ عُبيدِ اللهِ عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدة عنْ أبيهِ"کے طریق سے درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:
"أنّ النّبِيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- قالَ: بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ إلّا المغرِبَ"
(كشف الأستار، أبواب صلاة التطوع، باب: بين كل أذانين صلاة، 1/334، رقم:693، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)
ترجمہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہردو اذانوں (یعنی اذان واقامت) کے درمیان نماز ہےسوائے مغرب کے(یعنی ہر اذان واقامت کے درمیان نماز پڑھنا مستحب ہے، سوائے مغرب کے، کہ اُس میں اذان واقامت کے درمیان نفل نماز پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہے)‘‘۔
مذ کورہ روایت حضرت عبد اللہ بن بریدہ رحمہ اللہ سے اُن کے مختلف شاگردوں نے رویت کی ہے، اور سبھی نے"بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ"کے الفاظ سے روایت کی ہے، البتہ صرف اُن کے ایک شاگرد حیّان ( جواگرچہ امام بزار رحمہ اللہ وغیرہ کے نزدیک صدوق ہے، اُس )نے اس روایت کی سند اور متن دونوں میں دیگر روات کی مخالفت کی ہے، سند میں اس نے یوں کہا ہے:"عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدة عنْ أبيهِ"، جب کہ دیگر روات یوں روایت کرتے ہیں:"عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدةَ عنْ عبدِ اللهِ بنِ مُغفّلٍ-رضي الله عنه-"،متن میں اس نے "إلا المغرِبَ" کا اضافہ کیا ہے، جب کہ حضرت عبد اللہ بن بریدہ رحمہ اللہ کے دیگر شاگرد یہ اضافہ ذکر نہیں کرتے ۔
حافظ ابنِ جوزی رحمہ اللہ، حیّان کے متعلق فرماتے ہیں: یہ کذّاب ہے، لیکن حافظ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حیّان دو ہیں: ایک حیّان بن عبد اللہ ہے، وہ کذّاب ہے، دوسرا حیّان بن عبید اللہ ہے، وہ ثقہ ہے۔امام بزار رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس روایت میں حیّان بن عبید اللہ ہے، وہ بصری ہے، ثقہ ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے "اللآلي المصنوعة"میں لکھا ہےکہ حافظ ابنِ جوزی رحمہ اللہ کو(حیّان کی وجہ سے) اس روایت پر موضوع ہونے کا حکم لگانے میں تسامح ہوا ہے، پھر اُنہوں نے بھی حیّان کے بارے میں حافظ زیلعی رحمہ اللہ والی تفصیل ذکر کی ہے۔
حضرت مولانا محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فيض الباري شرح صحيح البخاري"میں مذکورہ روایت پر سیر حاصل بحث فرمائی ہے، جس سے اس روایت سے متعلق تمام پہلو خوب واضح ہو جاتے ہیں، ذیل میں انہی کی عبارت کی روشنی میں تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
حضرت کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے حدیث تو "إلّا المغرِبَ"کے استثناء کے بغیر ہو، مگر جب راوی نے مغرب کی نماز سے پہلے دورکعتیں پڑھنے کے معمول کا مشاہدہ نہ کیا ہو تو اُس نے اپنی طرف سے "إلّا المغرِبَ" کے الفاظملحق کردیے ہوں، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کیا ہے ، اُنہوں نےمغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے معمول کا مشاہدہ نہ ہونے پر نفی کی بنیاد رکھی ہے، "سنن أبي داود" میں ہے:"سُئِلَ ابن عمر -رضي الله عنهما- عنِ الرّكعتينِ قبلَ المغربِ، فَقالَ: مَا رأيتُ أحدًا علَى عهدِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- يُصلِّيهما ... إلخ"(حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کسی کو یہ دو رکعتیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا)، پس حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس مشاہدہ کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں تھی جس پر وہ مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی نفی کی بنیاد رکھ دیتے( اس لیے اُنہوں نے اسی پر نفی کی بنیاد رکھی ہے)۔اسی طرح جس نے "إلّا المغرِبَ"کے استثناء کا اضافہ کیا ہے اُس نے بھی اس کا اضافہ اس لیے کیا ہے کہ اُس نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کامعمول نہیں دیکھا، نہ کہ اس وجہ سے کہ اس کے پاس اس بارے میں کوئی جزئی مروی تھی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس باب میں تین روایات مذکور ہیں: پہلی روایت، حدیثِ عام ہےجس میں نفی یا اثبات کسی بھی اعتبار سے مغرب کی نماز سےپہلے دور کعتیں پڑھنے کے بارے میں تعرض نہیں کیا گیا، دوسری روایت وہ ہے جس میں مغرب کی نماز سے پہلے دور رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے(یعنی "صلُّوا قبلَ المغربِ")، تیسری روایت وہ ہے جس میں پانچوں نمازوں سے مغرب کی نماز کا اسثناء کیا گیا ہے۔
حضرت کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حدیثِ مرفوع تو حدیث ِ عام ہی ہے(یعنی نبي کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو صرف عمومی الفاظ:"بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ"ہی مروی ہیں) ، پھر جس کا مذہب مغرب کی نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا تھا، اُس نےسردِ روایت کے طور پر نہیں،بلکہ روایتِ معنی اور بیانِ مسئلہ کے لیے دوسرے الفاظ میں روایت کردیا(یعنی یہ الفاظ حدیث میں تو مذکور نہیں تھے ، بلکہ راوی نے بیانِ مسئلہ کے لیے اپنی الفاظ میں اُسے بیان کردیا)، اور جس نے پانچوں نمازوں سے مغرب کی نماز کا استثناء کیا ہے اُس نے خارج کو دیکھا ہے، جب اُس نے خارج میں مغرب کی نماز سے پہلے کسی کو اس پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو اُس نے اس وجہ سے مغرب کی نماز کو اس حکم سے خارج کردیا، نہ کہ اس وجہ سے کہ مغرب کی نماز کے اسثناء اُس کے نزدیک مرفوع تھا، (مغرب کی نماز کے استثناء کے مرفوع نہ ہونے کی دلیل ) دیکھئے جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی صراحت نہیں لائے ، بلکہ اُنہوں نے اپنے مشاہدہ اور معمول نہ ہونے کی بنیاد پر نفی کی ہے(اس سے معلوم ہوا کہ اُن کے پاس اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صریح حدیث نہیں تھی جبھی اُنہوں نے اپنے مشاہدہ اور معمول نہ ہونے پر نفی کی بنیاد رکھی) ، اسی طرح مغرب کی نماز کے اسثناء کا حال سمجھا جائے (کہ اس کے پاس مغرب کی نماز کے استثناء کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صریح روایت نہیں تھی ،بلکہ اُس نے خارج اور مشاہدہ کی بنیاد پر اس کا استثناء کیا ہے)۔ پھر اس روایت کے روات میں سے کسی نے اس کاذکر نہیں کیا کہ وہ اس پر عمل کرتے تھے، اس سےیہ بات محقق ہوگئی کہ جس نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی ہیں اُس نے حدیث کے الفاظ ِ عموم پر عمل کیا ہے، اور جس نے نہیں پڑھیں اُس نے مشاہدہ کو دیکھا ہے۔
بالجملہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ہی مذہب ِ منصور ہے، یہی جمہور کا مذہب ہے، جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے، نیز خلفائے اربعہ و دیگر حضرات سے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں نہ پڑھنے کی صراحت کے بعد بھی اگر کوئی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر رد کرے تو اُسے ذرا دیکھنا چاہیے کہ اس سب کے باوجود کیا یہ کوئی مناسب عمل ہے؟!
حضرت کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میرے نزدیک حاصل یہ ہے کہ ایک زمانہ میں مغرب کی نماز سے پہلے یہ دو رکعتیں پڑھی جاتی رہیں ،پھر ان کے ترک پر عمل منتہی ہوگیا، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اوپر گزری ، اور "سنن النسائي، باب الرخصة في الصلاة قبل المغرب" میں ہے:"أنّ أبا تميمٍ الجَيْشَانِيَّ قامَ لِيركعَ ركعتينِ قبلَ المغربِ، فقلتُ لِعقبةَ بنِ عامرٍ: اُنْظُرْ إلَى هَذا، أيَّ صلاةٍ يُصلِّيْ؟ فَالتفتَ إليهِ فَرآهُ، فَقالَ: هَذِه صلاةٌ كُنّا نُصلِّيها علَى عهدِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-" (حضرت ابو تمیم الجیشانی رضی اللہ عنہ (مغرب کی نماز سے پہلے ) دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں ( ابو الخیر) نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: اسے دیکھو ،یہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے؟ وہ اًُس کی طرف متوجہ ہوئے اور اُنہیں دیکھا، تو وہ کہنے لگے:یہ وہ نماز ہے جو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھا کرتے تھے)، اس حدیث سے دوباتیں ثابت ہوئیں: یہ دور کعتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پڑھی جاتی تھیں ، پھر ان کا معمول ختم ہوگیا، یہاں تک کہ ان کے انکار تک نوبت پہنچ گئی، راوی کے الفاظ :"أيَّ صلاةٍ يُصَلِّي؟"دیکھئے، کیسے اُن کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! گویا اس کی اصل سے واقف ہی نہیں ۔باقی رہا حضرت ابوتمیم رضی اللہ عنہ کا عمل تو اذواق میں سے ہے، اور مسائل امر ونہی سے ماخوذ ہوتے ہیں ،لوگوں کے اذواق سے ماخوذ نہیں ہوتے، اس لیے کہ لوگوں کے اذواق اپنی اپنی پسند کے مطابق ہوتے ہیں۔
خلاصہ کلام:
حضرت کشمیری رحمہ اللہ کی بیان کردہ مذکورہ تحقیق وتفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو"إلّا المغرِبَ" کے اسثثناء کے بغیر عمومی الفاظ:"بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ"ہی مروی ہیں ، تاہم ایک زمانہ میں مغرب کی نماز سے پہلے یہ دو رکعتیں پڑھی جاتی رہیں ہیں ،پھر ان کے ترک کا معمول ہوگیا تھا ، یہاں تک کہ خلفائے اربعہ ودیگر حضرات کے متعلق بھی اس کے ترک کی صراحت مذکور ہے۔ پھر جس نے خارج میں مغرب کی نماز سے نفل نماز پڑھنے کا معمول نہیں دیکھا تو اُس نے خارج اور اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر مغرب کی نماز کو اس حکم سے خارج کردیا، بعد ازاں جس نے مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھی ہیں اُس نے حدیث کے الفاظ ِ عموم پر عمل کیا ہے، اور جس نے نہیں پڑھیں اُس نے مشاہدہ کو دیکھا ہے۔
"فتح الباري شرح صحيح البخاري" میں ہے:
"وأمّا روايةُ حيّان -وهو بفتح المهملة والتحتانية- فَشاذّةٌ؛ لِأنّه وإنْ كانَ صدوقاً عندَ البزّارِ وغيرِه، لَكنّه خالفَ الحفّاظَ مِنْ أصحابِ عبدِ اللهِ بنِ بُريدة في إسنادِ الحديثِ ومتنِه".
(فتح الباري، كتاب الأذان، باب كم بين الأذان والإقامة، 2/108، ط: دار المعرفة - بيروت)
"إعلاء السنن" میں ہے:
"قلتُ: أمّا مخالفتُه في الإسنادِ فَبأنّه قالَ: "عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدةَ عنْ أبيهِ، وغيرُه مِنَ الحفّاظِ يروُوْنَه "عنْ عبدِ اللهِ بنِ بُريدةَ عنْ عبدِ اللهِ بنِ مُغفّلٍ"، ومخالفتُه في المتنِ بِأنّه زادَ "إلّا المغرِبَ"، وعامّةُ أصحابِ عبدِ اللهِ بنِ بُريدةَ لَا يذكرُوْنَ هَذِه الزّيادةَ".
(إعلاء السنن، كتاب الصلاة، باب الأوقات المكروهة، 2/557، ط: دار الفكر - بيروت)
"السنن الكبرى للبيهقي"میں ہے:
"ولَعلَّه لمّا رأَى العامّةَ لَا تُصلِّي قبلَ المغربِ توهَّم أنّه لَا يُصلَّى قبلَ المغربِ، فَزادَ هَذِه الكلمةَ في الخبرِ".
(السنن الكبرى، جماع أبواب صلاة التطوع، باب من جعل قبل صلاة المغرب ركعتين، 2/667، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)
"فيض الباري شرح صحيح البخاري"میں ہے:
"ثُمّ وردتْ في الحديثِ العامِ زيادةٌ عندَ الدّارقطنِيِّ و"مسند البزّارِ" هَكذَا: "بينَ كُلِّ أذانينِ صلاةٌ إلّا المغرِبَ". اه. وهُو عجيبٌ، فإنّ استثناءَ المغربِ يُناقِضُ صراحةً قولِه: "صلُّوا قبلَ المغرِبِ"، ولَا يَلْتَقِي الأمرُ بِها معَ استثنائِها حتّى يَلْتَقِي السُّهيلُ معَ السُّها. قِيْلَ: فِي إسنادِ الاستثناءِ حيّانُ بنُ عبدِ اللهِ، وقالَ ابنُ الجوزِيُّ: إنّه كذّابٌ، ومرَّ عليْهِ الزّيلعِيُّ وقالَ: إنّه اثنانِ: ابنُ عبدِ اللهِ، وهُو كذّابٌ، وابنُ عُبيدِ اللهِ، وهُو ثِقةٌ، ونُقِلَ عنِ البزّارِ: أنّ حيّانَ هَهُنا هُو ابنُ عُبيدِ اللهِ، وهُو بصرِيٌّ، ثِقةٌ، ومرَّ عليْهِ السُّيوطِيُّ في "اللآلى المصنوعةِ"، وقالَ: وسَها ابنُ الجوزِيِّ في حُكمِه بِالوضعِ، ثُمّ قرّرهُ بِما مرَّ، فَالرّوايةُ صحيحةٌ ...
قلتُ: ولعلّ الحديثَ كانَ بِدُونِ الاستثناءِ، إلّا أنّ الراوِيَ لمّا لَمْ يُشاهِدْ بِهما العملَ ألحقَ بِه الاستثناءَ مِنْ قِبَلِ نفسِه، كمّا فعلَ ابنُ عمرَ -رضي الله عنهما-، وبنَى نفْيَه علَى انتفاءِ المشاهدةِ عِنْدَهُ، فَعِنْدَ أبِيْ داودَ قالَ: سُئَل ابنُ عمرَ -رضي الله عنهما- عنِ الرّكعتينِ قبلَ المغرِبِ، فَقالَ: مَا رأيتُ أحداً علَى عهدِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- يُصلِّيهما... إلخ. فَليسَ عِنْدَهُ غيرَ تِلكَ المشاهدةِ، فَبنَى عليْهَا النّفيَ. وهَكذَا حالُ مَنْ زادَ الاستثناءَ فَإنّما زادَهُ لِأجلِ أنّه افتقدَ بِهما العملَ، لَا أنّه كانَ مرويّاً عِنْدَهُ جُزئيّاً.
وتحصّلَ مِنَ المجموعِ: أنّ في البابِ ثلاثَ رواياتٍ: الأُوْلَى: الحديثُ العامُّ بِدُوْنِ تعرّضٍ إلَى المغرِبِ نفياً وإثباتاً، والثّانِيْ: الأمرُ بِها جُزئيّاً، والثّالثُ: استثناؤُها عنِ الخمسِ. والّذِيْ يدورُ بِالبالِ - وإنْ لَمْ يكنْ لهُ بالٌ - أنّ الحديثَ المرفوعَ هُو الحديثُ العامُ، ثُم مَنْ كانَ مذهبُه الصّلاةُ قبلَ المغرِبِ رَواهَا علَى اللفظِ الثّانِيْ علَى طريقِ روايةِ المعنَى وبياناً لِلمسألةِ، لَا علَى شاكلةِ سَرْدِ الرّوايةِ. ومَنْ اسْتَثْنَاهَا عنِ الخمسِ نظرَ إلَى الخارجِ، ولمّا لم يجد فيهِ أحداً يعملُ بِهما أخرجَهما عنِ الأمرِ بِالصّلاةِ لَا محالةَ، لَا أنّ الاستثناءَ مرفوعٌ عِنْدَهُ، أَلَا ترَى أنّ ابنَ عمرِ -رضي الله عنهما- لمّا سُئَلَ عنْهما لَمْ يأتِ بِصريحِ النّهيِ عنِ النّبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، وإنّما نفاهُما بِناءً علَى مُشاهدتِه وفُقدانِ العملِ، هَكذَا فَليَفْهَمْ حالَ الاستثناءِ. ثُمّ لَمْ يذكرْ راوٍ مِنْ رُواةِ هَذِه الرّوايةِ أنّ واحداً مِنْهُمْ كانَ يعملُ بِهما، وهَذا يُحقِّقُ أنّ مَنْ صلّى بِهما فَقد عمِل بِألفاظِ الحديثِ، ومَنْ تركَهما فَقَدْ نظرَ إلَى المُشاهدةِ.
وبِالجملةِ إنّ مذهبَ الإمامِ هُو المذهبُ المنصورُ، وإليهِ ذهبَ الجمهورُ، كَما صرّح بِه النّووِيُّ، ثُمّ إنّه معَ التصريحِ بِعملِ الخلفاءِ الأربعةِ وغيرِهم علَى التّركِ أرادَ أنْ يردَّ علَى أبِيْ حنيفةَ -رحمه الله تعالى- فَلْيَنْظُرْ هَل يُناسِبُ هَذا بعدَ ذلكَ؟! وإنْ تعدلُوْا هُو أقربُ لِلتّقوَى، واللهُ المُستعانُ.
ومَا تحصّلَ عِنْدِيْ: أنّهما قَدْ عمِل بِهما في زمنٍ، ثُمّ انتهَى العملُ بِالتّركِ، كَما مرّ عنِ ابنِ عمرَ -رضي الله عنهما-، وعِنْدَ النّسائِيِّ في بابِ الرُّخصةِ في الصّلاةِ قبلَ المغرِبِ: أنّ أبا تميمٍ الجَيْشَانِيَّ قامَ لِيركعَ ركعتينِ قبلَ المغرِبِ، فَقلتُ لِعقبةَ بنِ عامرٍ: اُنْظُرْ إلَى هَذا، أيَّ صلاةٍ يُصلِّي؟ فَالتفتَ إليهِ فَرآهُ، فَقالَ: هَذِه صلاةٌ كُنّا نُصلِّيها علَى عهدِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-. اه. فَثبتَ مِنْهُ الجزآنِ، أيْ: أنّها كانتْ في عهدِ النّبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، ثُمّ انقطعَ بِهما العملَ حتّى أفضَى إلَى الإنكارِ عليْهِما، ألَا ترَى إلَى قولِه: "أيَّ صلاةٍ يُصلِّي؟" كيفَ يَتساءلُ عنْها كأنّه لَا يعرِفُ أصْلَها. بَقِيَ عملُ أبِيْ تميمٍ، فَتِلْكَ أذواقٌ لِلنّاسِ ... وبِالجُملةِ: المسائلُ إنّما تُؤْخَذُ مِنَ الأمرِ والنّهيِ، لَا مِنْ أذواقِ النّاسِ، وإنّ لِلنّاس فِيْمَا يعشِقُوْنَ مذاهبُ".
(فيض الباري، باب كم بين الأذان والإقامة ومن ينتظر الإقامة، ج:2، ص:190-192)
۲۔ مغرب کی نماز میں تعجیل سے متعلق چند روایات درج ذیل ہیں:
۱۔"حدّثنا محمّد بنُ بشّارٍ، قالَ: حدّثنا محمّد بنُ جعفرَ، قال: حّدثنا شعبةُ عنْ سعد بنِ إبراهيم عنْ محمّد بنِ عمرو بنِ الحسن بنِ علِيٍّ، قال: قدِم الحجّاجُ فَسألْنا جابر بنَ عبد الله-رضي الله عنه-، فقالَ: كانَ النّبِيُّ -صلّى الله عليه وسلّم- يُصلِّي الظّهرَ بِالهاجِرةِ، ... والمغرِبَ إذا وجبتْ ...إلخ".
(صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب وقت المغرب، 1/116، رقم:560، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’(حضرت) جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپھر ڈھلے پڑھتے تھے ، ۔۔۔اور مغرب کی نماز وقت ہوتے ہی پڑھتے تھے‘‘۔
۲۔"حدّثنا محمّد بنُ مهران، قالَ: حدّثنا الوليدُ، قالَ: حدّثنا الأوزاعِيُّ، قال: حدّثنا أبو النَّجاشِيِّ صُهيبٌ مَوْلَى رافِع بنٍ خديجٍ -رضي الله عنه-، قال: سمعتُ رافِع بنَ خديجٍ-رضي الله عنه-، يقولُ: كُنّا نُصلِّي المغرِبَ معَ النّبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم-، فَينصرِفُ أحدُنا وإنّه لَيُبْصِرُ مواقِعَ نَبْلِه".
(صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب وقت المغرب، 1/116، رقم:559، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’(حضرت) رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے تھے ، پھر ہم میں سے کوئی (نماز سے فارغ ہوکر )واپس لوٹتا تو وہ اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ لیتا تھا‘‘۔
۳۔"حدّثنا المكِيُّ بنُ إبراهيم، قالَ: حدّثنا يزيد بنُ أبِيْ عُبَيْدٍ عنْ سلمة-رضي الله عنه- قال: كُنّا نُصلّي معَ النّبِيِّ -صلّى الله عليه وسلّم- المغرِبَ إذا توارتْ بِالحجابٍ".
(صحيح البخاري، كتاب مواقيت الصلاة، باب وقت المغرب، 1/117، رقم:561، ط: دار طوق النجاة)
ترجمہ:
’’(حضرت) سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے تھے جب سورج پردہ کی اوٹ میں چلا جاتا تھا(یعنی سورج غروب ہوتے ہی پڑھتے تھے)‘‘۔
۴۔"حدّثنا ابنُ أبِيْ داود، قالَ: ثنا أبو عمر الحوضِيُّ، قالَ: ثنا يزيد بنُ إبراهيم، قال: ثنا محمّد بنُ سيرين عنِ المُهاجِرَ-رحمه الله- أنَّ عمر بنَ الخطّابِ -رضي الله عنه- كتبَ إلَى أبِيْ موسى-رضي الله عنه-: أنْ صلِّ المغربَ حِيْنَ تغربُ الشّمسُ".
(شرح معاني الآثار، كتاب الصلاة، باب مواقيت الصلاة، 1/154، رقم:933، ط: عالم الكتب)
ترجمہ:
’’(حضرت) محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (حضرت) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (حضرت ) ابو موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ کو خط لکھا:مغرب کی نما ز سورج غروب ہوتے ہی پڑھاکرو‘‘۔
۵۔"حدّثنا ابنُ مرزوقٍ، قال: ثنا وهبٌ، قال: ثنا شُعبةُ عنْ طارق بنِ عبد الرّحمن عنْ سعيد بنِ المُسيِّبِ-رحمه الله- أنّ عمرَ -رضي الله عنه- كتبَ إلَى أهلِ الجابِيةِ: أنْ صلُّوا المغربِ قبلَ أنْ تبدُوَ النُّجومُ".
(شرح معاني الآثار، كتاب الصلاة، باب مواقيت الصلاة، 1/154، رقم:934، ط: عالم الكتب)
ترجمہ:
’’(حضرت) سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (حضرت) عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ جابیہ کو خط لکھا: مغرب کی نماز ستاروں کے ظاہر ہونے سے پہلے پڑھا کرو‘‘۔
۶۔"حدّثنا روح بنُ الْفَرَج، قال: ثنا يوسف بنُ عدِيٍّ، قال: ثنا أبو الأحوصِ عنْ مُغيرةَ عنْ إبراهيم، قالَ: قالَ: عبدُ الرّحمن بنُ يزيد-رحمه الله-: صلّى ابنُ مسعودٍ-رضي الله عنه- بِأصحابِه المغربَ حينَ غربتِ الشّمسُ، ثُمّ قالَ: هَذا، والّذِيْ لَا إلهَ إلّا هُو، وقتَ هَذِه الصّلاةِ".
(شرح معاني الآثار، كتاب الصلاة، باب مواقيت الصلاة، 1/155، رقم:936، ط: عالم الكتب)
ترجمہ:
’’(حضرت) عبد الرحمن بن یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (حضرت) ابن ِ مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز پڑھائی ، پھر فرمایا: یہ، اُس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس نماز کا وقت ہے‘‘۔
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511100419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن