بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص اپنے مرحوم باپ یا اماں کی طرف سے صدقہ فطر دے سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ صدقہ فطر صرف زندہ لوگوں پر واجب  ہوتا ہے  مرحومین پر نہیں ، ہاں اگر  زندگی میں جو صدقہ فطر ادا کرنا تھا،وہ ادا نہیں کیا تو اس کو ادا کرنا درست ہے، اگر وصیت کی ہے،تو  ایک تہائی  سے ادا کرنا ضروری ہے،اور  اگر میت نے وصیت نہیں کی تو  ورثاء  اجتماعی یا انفرادی طور پر ادا کر سکتے ہیں،اور یہ میت پر احسان ہوگا،باقی مرحومین کے  ایصالِ ثواب کے لیے صدقہ خیرات کرنا درست ہے،اس سے مرحومین کو بہت بڑا فائدہ ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي البحر: من صام أو صلي أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الاموات والاحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند اہل السنۃ والجماعة كذا في البدائع ."

 (كتاب الصلوة،باب صلاة الجنازة،مطلب فی القراءۃ للمیت واھداء ثوابها لہ ج 2 ص:243  ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله تجب على حر مسلم ذي نصاب فضل عن مسكنه وثيابه وأثاثه وفرسه وسلاحه وعبيده)."

[کتاب الزکوۃ، باب: صدقة الفطر،عن من تخرج صدقة الفطر،ج:2 ص :271 ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله). قال ابن عابدين: (قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة، فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة، فلا بد فيها من الاختيار. (قوله وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، 72،73/2، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں