بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین اقرباء کےلیے ایصال ثواب کاحکم


سوال

 ہمارے پیارے اقرباءجووفات پا چکےہیں ان کی طرف سےبطورایصال ثواب صدقہ و خیرات دے سکتے ہیں؟تفصیل کےساتھ آگاہی فرمائیں ۔

جواب

 واضح رہےکہ مرحومین اقرباء کوایصال ثواب کےمسئلےمیں چند اُمور پیش خدمت ہیں۔(1)مرحومین اقرباء کے لیےجواس دنیاسےرخصت ہوچکےہیں،زندوں کابس یہی ایک تحفہ ہےکہ اُن کوایصال ثواب کیاجائے۔(2)ایصال ثواب کی حقیقت یہ ہےکہ جونیک عمل آپ کریں اس کےکرنےسےپہلےنیت کر لیں کہ اس کاثواب جوحاصل ہووہ اللہ تعالیٰ مرحومین اقرباء کوعطاکرے،اسی طرح کسی نیک عمل کرنےکےبعد بھی یہ نیت کی جاسکتی ہےاورزبان سے بھی دعا کرلی جائےتواچھاہے۔(3)صدقات میں سب سےافضل صدقہ جس کاثواب مرحومین اقرباء کوبخشاجائے،صدقہ جاریہ ہے،مثلاً اقرباء کےایصال ثواب کےلیےکوئی مسجد بنوادی،کسی دینی مدرسہ میں تفسیر ،حدیث یافقہ کی کتابیں وقف کردیں،قرآن کریم کے نسخے خرید کروقف کردیئے،جب تک ان چیزوں سے استفادہ ہوتا رہےگا،مرحومیں اقرباء کواس کابرابر ثواب ملتا رہےگا۔(4)ایصال ثواب کےسلسلےمیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ مرحومین اقرباء کو اسی چیزکاثواب پہنچےگاجوخالصتاًلوجہ اللہ دی گئی ہو،اس میں نمودونمائش مقصود نہ ہو،نہ اس کی اجرت اورمعاوضہ لیاگیا ہو،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل اپنےاقرباء کےلیےیاکسی بھی مسلمان میت کےلیےبطورایصال ثواب صدقات وخیرات دےسکتےہیں،اسی طرح سائل اپنے نیک اعمال کاثواب بھی اپنےاقرباء کوعطاکرسکتے ہیں۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاءه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به ‌بعد ‌موتهما؟ قال: نعم الصلاة عليهما، والإستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما."

(كتاب الأدب، باب في برالوالدين، ج:4، ص:336، ط: المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن علي مرفوعا: من ‌مر ‌على ‌المقابر وقرأ {قل هو الله أحد} [الإخلاص: 1] إحدى عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات، أعطي من الأجر بعدد الأموات."

(كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج:3، ص:1228، ط: دار الفكر، بيروت، لبنان)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا مات الإنسان ‌انقطع ‌عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، وعلم ينتفع به، وولد صالح يدعو له."

(أبواب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب الوقف، ج:3، ص:53، ط: دار الغرب الإسلامي، بيروت)

فتح القدیر  میں ہے:

"عَن أنس، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ: أَنه سَأَلَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فَقَالَ: يَا رَسُول الله إِذا نتصدق عَن مَوتَانا ‌ونحج ‌عَنْهُم وندعو لَهُم فَهَل يصل ذَلِك اليهم؟ قَالَ: نعم، ويفرحون بِهِ كَمَا يفرح أحدكُم بالطبق إِذا أهدي إِلَيْهِ."

(كتاب العارية، باب الحج عن الغير، ج:3، ص:143، ط: دار الفكر، لبنان)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة."

(كتاب الصلاة، باب الجنائز، مطلب في زيارة القبور، ج:2، ص:243، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100280

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں