سوال نمبر 144403102080میں سوال یہ تھا کہ میری والدہ تیرہ سال سے بیمار رہیں اور انہوں نے اکثر نمازیں نہیں پڑھیں، اس کا حکم کیا ہے ؟جس کا جواب دیا گیا،اس جواب کےآخر میں آپ نے بات بتائی ہے کہ اگر متعینہ طور پر تعداد معلوم نہ ہوسکتی تو غالب گمان سے ان نمازوں کاحساب لگاکر اس سے کچھ زیادہ کاحساب رکھ کر اس کے مطابق فدیہ ادا کیا جائے گا ۔اس جگہ کا حوالہ نہیں لکھا ہے، اس کا حوالہ ضروری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب قضاء شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو اس صورت میں غالب گمان سے ان نمازوں کا حساب لگا کر اس سے کچھ زیادہ کا حساب رکھ کر اس کے مطابق فدیہ اداکرنے کا حکم اس لیے ہوتا ہے کہ جب متعین تعداد معلوم نہ ہو تو اس صورت میں غالب گمان کے مطابق عمل کرنے کا حکم ہوتا ہے اور اس سے کچھ زیادہ کاحساب رکھنے کا اس سےلیے کہا جاتا ہے کہ اس بات کا اطمینان حاصل ہوجائے کہ اب ذمہ میں کوئی قضاء نماز نہیں رہ گئی ہوگی۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء."
(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ص:447،ط:دار الكتب العلمية)
حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:
"{فرع} وفي الحاوي لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقضي حتى يستيقن."
(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،190/1،ط:المطبعة الكبري،بولاق)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404101597
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن