بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کے کرایہ داری کے معاہدہ کا حکم


سوال

1. دو اشخاص کے درمیان کرایہ داری کا ایک معاہدہ ہوا ،جو 10 سال کے لیے تھا ،10 سال کے بعد نہ تو انہوں نے اس معاہدے کی تجدید کی، اور یہ سلسلہ اسی طرح آج تک چل رہا ہے،اس کاکیا حکم ہے ؟

2.کیا یہ معاہدہ جن دو اشخاص کے درمیان ہوا تھا، دونوں حضرات اب  اس دنیا میں نہیں ہیں، تو اس معاہدے کی شقوں کا اطلاق ان کی اولاد پر بھی ہوگا یانہیں ؟

3.کرائے داری کا یہ معاہدہ جس جگہ کے لیے ہوا تھا ،وہ جگہ قبضے کی ہے یعنی غیر لیز شدہ ہے ،اس وقت اس جگہ کا جو ایڈوانس دیا گیا تھا، وہ اس وقت کے حساب سے بہت زیادہ تھا، یہ ایڈوانس زیادہ  اس وجہ سے دیا گیا تھا کہ اس جگہ کے فرنٹ پر دکانیں تھیں ،یہ رقم ان دکانوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے دی گئی تھی، جو آج کے حساب سے کروڑوں میں بنتی ہے،معاہدہ کی رو سے یہ کہا گیا ہے کہ اس رقم پر کوئی سود نہیں لیا جائے گا، اور یہ رقم ایڈوانس تصور کی جائے گی ،یہ بتایا جائے کہ جب سب کو معلوم ہے کہ یہ رقم قبضہ چھڑانے کے لیے دی گئی تھی اور اس کے گواہ موجود ہیں تو کیا معاملہ ہوگا؟

4.جس معاہدے میں سود کا ذکر ہو، کیا اس کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے؟

5.یہ بتایا جائے کہ قبضہ کی جگہ  ترکہ میں تقسیم کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

جواب

1.صورتِ مسئولہ میں کرایہ دار ی کے معاہد ہ کے دس سال ختم ہونے کے بعد جتنا عرصہ  معاہد ہ کی تجدید کیے بغیرمزید کرایہ دار اس کرایہ کی جگہ کو استعمال کرتا رہا ،تو اس سارے عرصہ کا کرایہ اسی پرانے معاہدہ کے مطابق کرایہ دار  پر لازم ہوگا،البتہ جب مالک زمین چاہے ،تو وہ یہ معاملہ ختم کرکے اپنی زمین کرایہ دار سے واپس لینے کا حق رکھتا ہے ،اور اگر وہ چاہےکہ اسی کرایہ دار کے ساتھ نیا معاہدہ کرے ،تو اس کی بھی گنجائش ہے ،نیز یہ اختیار کرایہ دار کو بھی حاصل ہے کہ نیا معاہدہ کرے یا نہ کرے ۔

2.کرایہ داری کا معاملہ مالک یا کرایہ دار کے مرنے سےختم  ہوجاتا ہے،لہذا جب  کرایہ دار ی کا معاہدہ کرنے والےفریقین  کا انتقال ہوچکا ہے ،تو ان کا معاہدہ بھی ختم  ہوگیا،اور ان میں سے کسی کی اولاد پر اس کی پاسداری شرعاً ضروری نہیں تھی ،لیکن جب دونوں کی اولاد نے اس معاملہ کو حسب سابق جاری رکھا  ،اس لیے اس کی عملی تجدید ہونے کی وجہ سے جب تک فریقین اس کو حسب سابق جاری رکھنے پر متفق ہوں ،جاری رکھ سکتے ہیں ،البتہ اگر از سرنو دونوں عاقدین کی اولاد  آپس میں نیا معاملہ کرنا چاہیں ،یا اسی سابقہ معاملہ کو تجدید معاہدہ کی صورت میں  برقرار رکھنا چاہیں ،تو باہمی رضامندی سے کرسکتے ہیں ،بلکہ کرلیا جائے ،تو زیادہ مناسب ہے ۔

3. اگر واقعۃ کرایہ دار نے  مذکورہ رقم بطورِایڈوانس (جس کو آج کل سیکورٹی ڈپازٹ بھی کہا جاتا ہے ) مالک مکان کو دی تھی ،اور اس میں اضافہ اس لیے کیا تھا کہ اس کے ذریعہ سے وہاں موجود دکانوں کا قبضہ چھڑایا جاسکے ،تو ایسی صورت میں وہ رقم  مالک مکان کے پاس بطورِ قرض  ہوگی ،اور کرایہ دار ی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہ رقم مالک مکان کے ذمہ واپس کرنا لازم ہوگی ،البتہ اگر کرایہ دار کے ذمہ مالک مکان کے کچھ واجبات ہوں ،تو اس کے بقدر مالک مکان اس میں سے منہا کرسکتا ہے ۔

4. یہ سوال قابل وضاحت ہے ۔

5. قبضہ کی جگہ یعنی غیر لیز شدہ زمین  قبضہ کرنے والے کی ملکیت شمار نہیں ہوتی ،بلکہ قابض کے ذمہ ہوتا ہےکہ وہ سرکار  کو واپس لوٹائے ،البتہ اس جگہ  پر قبضہ کرنے والا اگر کوئی تعمیر کرے،تو وہ تعمیر اس کی ملکیت شمار ہوتی ہے ،اور وہ اسے کرایہ پر بھی دے سکتا ہے ،لہذا  جب قبضہ کی جگہ قابض کی ملکیت میں ہی نہیں آئی ،تو اس کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں بھی تقسیم نہیں ہوگی،البتہ جو تعمیر قابض نے کی ہے ،وہ اس کے انتقال کے بعد اس کے ور ثاء میں ان کے شرعی  حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"‌‌[الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ]

وفي الحكم ببقاء الإجارة وانعقادها مع وجود ما ينافيها استأجر دارا شهرا فسكن شهرين لا أجر عليه في الشهر الثاني هذا جواب الكتاب وروي عن أصحابنا يجب وعن الكرخي ومحمد بن سلمة إنهما يوفقان بين الروايتين بين المعد للاستغلال وغير المعد للاستغلال من غير تفصيل بين الدار والحمام والأرض قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - وبه يفتى كذا في خزانة الفتاوى۔۔۔۔

استأجرها سنة بأجر معلوم فسكنها ثم سكنها سنة أخرى ودفع الأجر ليس له أن يسترد هذا الأجر قال - رضي الله تعالى عنه - والتخريج على الأصول يقتضي أن تكون له ولاية الاسترداد إذا لم تكن الدار معدة للإجارة. كذا في القنية."

(کتاب الاجارۃ ،الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ،ج:4،ص:427،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"آجر داره كل شهر بكذا فلكل الفسخ عند تمام الشهر."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:45،ط:سعید)

صحیح مسلم میں ہےـ:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."

(باب لعن اٰكل الربوا و موکله،ج:3،ص:1219، ط: دار إحیاء التراث العربي)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة،ج:2،ص:889،رقم الحدیث:2946،ط:المکتب الإسلامی بیروت) 

ترجمہ:"حضرت ابو حرۃ رقاشی رحمہ اللہ نے اپنے چچا سے نقل کیا ہےکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’خبر دار کسی پر ظلم نہ کرنا ،اچھی طرح سنو  کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی کے بغیر حلال نہیں ہے"۔

(مظاہر حق جدید،ج:3،ص:173،ط:مکتبہ العلم)

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره ،وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه."

(کتاب الشرکة ، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، ج:2،ص:301،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں