بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

ایک شخص نے   قربانی کی نیت سے جانور خریدا،اور اس میں دو حصے اس کے اور اس کی بیوی کے ہیں، باقی  5حصے میں، وہ شخص   اپنے مرحومین یعنی  والد، والدہ، دادا، دادی ،پردادا  کی طرف  سے قربانی کی نیت کرسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ اگر کوئی شخص  قربانی کا بڑا جانور خریدے، اس میں  چند حصے اپنے اور اپنے گھر کے افراد کی طرف سے اور بقیہ  حصے  اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے کرے توسب کی  قربانی درست ہوجاتی ہے، اور سب کو قربانی کا ثواب ملتا ہے،اورایسی قربانی کا گوشت بھی سب کے لیے کھانا جائز ہوتا ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر کوئی شخص قربانی  کا  بڑا جانور خریدے  اور اس میں دو حصے اس کے اور اس کی بیوی کی طرف سے  ، باقی  5حصے میں، وہ شخص   اپنے مرحومین یعنی  والد، والدہ، دادا، دادی ،پردادا  کے ایصال ثواب کی نیت کرے  تو  سب کی طرف سے صحیح ہوجاۓ گی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإن) (مات أحد السبعة) المشتركين في البدنة (وقال الورثة اذبحوا عنه وعنكم) (صح) عن الكل استحسانا لقصد القربة من الكل ....... (قوله لقصد القربة من الكل) هذا وجه الاستحسان. قال في البدائع لأن الموت لا يمنع التقرب عن الميت بدليل أنه يجوز أن يتصدق عنه ويحج عنه، وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته» وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح اهـ ........ من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح.  قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لايأكل منها وإلا يأكل، بزازية، وسيذكره في النظم."

(كتاب الاضحية،326/6، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسرا."

(كتاب الأضحية،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،304/5، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وإن كان أحد الشركاء ‌ممن ‌يضحي ‌عن ‌ميت جاز."

(كتاب التضحية،فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية،72/5،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں