بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کا چالیسواں کرنے کا حکم


سوال

 کیا مرحومین کا چالیسواں کرنا درست ہے؟

جواب

 عوام الناس میں رائج مرحومین کا چالیسواں جسے موجودہ زمانہ میں باقاعدہ دین کا حصہ سمجھ کر کیا جاتا ہے، سراسر بدعت   ہے،اور اس میں پائے جانے والے دیگر مفاسد کی وجہ سے اِس کا اہتمام و التزام کرنا قرآن وسنت کی رو سے ناجائز ہے۔

البتہ مرحومین کوایصالِ ثواب (تلاوت کا ہو یا دیگر نیک اعمال کا) پہنچانا مقصود ہوتو وہ وقت اور جگہ کی تعیین و تخصیص کے بغیر، ہر وقت اور ہر موقعہ پر کیاجاسکتا ہے، اور میت کو اس کا فائدہ پہنچتا ہے،  لیکن اس کے لیے تیسرے دن، ساتویں اور چالیسویں دن، اور سال کی تخصیص کرنا شرعاً  ثابت نہیں ہے، نہ ہی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔

مزید تفصیل کے لیے درج فتوی ملاحظہ ہو:

تیجا چالیسواں، بیسواں دسواں کرنے کا حکم

فتاوی شامی میں ہے:

"یکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة، وقوله: ویکره اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبرفي المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقرّآء للختم أو لقراء ة سورة الإنعام أوالإخلاص."

( کتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة، مطلب في كراهة الضیافة من أهل المیت، کراچی ۲/۲۴۰، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"ومنها: الوصیة من المیت باتخاذ الطعام والضیافة یوم موته أو بعده و بإعطاء دراهم  من یتلو القرآن لروحه أو یسبح و یهلل له، وکلها بدع منکرات باطلة، والماخوذ منها حرام للاٰخذ، وهو عاص بالتلاوة والذکر".

(رد المحتار مع الدر المختار :۶/۳۳ ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505100882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں