بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے مسجد بنانا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے  میں کہ جو لوگ فوت ہو جاتے ہیں، ان کے ایصال ثواب کے لیے مساجد بنانے کا آج کل بہت ہی رواج چل رہا ہے، تقریباً ہر محلہ میں اور کبھی ضرورت سے زائد ایصال ثواب کےلیے مساجد بنائی جا رہی ہے، مسجد بنانے والے کی نیت خالص ایصال ثواب کی ہے، یعنی مسجد میں جو بھی عبادت ہوتی ہے اس کا ثواب مخصوص مرحوم کو ملے،اب ایسے میں مسجد بنانے والے کی نیت خالص اللہ کی عبادت کے لیے عبادت گاہ نہ ہوئی،تو اب ایسے مساجد جہاں اللہ کی ہونے والی عبادات سے فوت شدہ بندے کو ثواب ملنا مقصود ہو ،وہاں نماز کی ادائیگی کا کیا حکم ہے؟   اور ایسے میں کیا مسجد بنانے والے کی نیت کا اثر لوگوں کی عبادات پر نہیں ہوگا؟  اور اگر کوئی شخص اپنی عبادت سے کسی کو بھی ثواب پہنچانا نہ چاہتا ہو تو کیا ایسی مسجد میں اس شخص کی نماز ہو جائے گی؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی،غرباء ومساکین پر صدقہ و خیرات یا کنواں،مسجد وغیرہ بناکر مرحومین کو ثواب پہنچانا شرعاً درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے،اور کوئی چیز  (مسجد وغیرہ) مرحومین کے لیے  ایصال ثواب  کی نیت  سے بنانے یا صدقہ کرنے سے اخلاص نیت پر کوئی اثر نہیں پڑھتا،البتہ دکھاوے  اور ریاکاری کے طور پر کوئی عمل کیا جائے تو اس کرنے والے  کوثواب نہیں ملتا بلکہ عذاب کا مستحق ہوتاہے،نیز ایسی مسجد  جس کی تعمیر مرحومین کے ایصال ثواب کی نیت سےکی گئی ہومیں نماز پڑھناصحیح ہے،اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنے سے پڑھنے والے شخص کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا،اور نہ ہی اس کی عبادت کے ثواب میں کوئی کمی ہوتی ہے،اور اگر نماز پڑھنے والے مرحوم کو ثواب پہنچانے کی نیت نہیں کرتاتو پھر بھی اس کی نماز ادا ہو جائےگی،اور مرحوم کو بھی اللہ اپنے خزانوں سے اپنے رحمت کے مطابق ثواب پہنچادیتا ہے۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا محمد بن سلام: أخبرنا مخلد بن يزيد: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني يعلى: أنه سمع عكرمة يقول: أنبأنا ابن عباس رضي الله عنهما: «أن سعد بن عبادة رضي الله عنه ‌توفيت ‌أمه وهو غائب عنها فقال: يا رسول الله إن أمي توفيت وأنا غائب عنها أينفعها شيء إن تصدقت به عنها قال: نعم. قال: فإني أشهدك أن حائطي المخراف صدقة عليها.»."

(كتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة لله عن أمي، ج:4 ص:7 ط: دار طوق النجاة)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

(كتاب الزكاة، باب فضل الصدقة، الفصل الثاني، ج:1ص:597 ط: المكتب الإسلامي)

صحيح مسلم  میں ہے:

"عن أبي هريرة، أنّ رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."

(كتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلى الميت، ج:3 ص:1254 ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن أبي داود  میں ہے:

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»."

(كتاب الفرائض، باب في بر الوالدين، ج:7 ص:456 ط: دار الرسالة العالمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں