بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کے زیورات کی بیٹوں میں تقسیم


سوال

میں نے اپنی بہن کو شادی پر میکے والوں کی طرف سے جہیز کا سامان اور کچھ زیورات  دیے تھے بہن کا 2009 میں انتقال ہوگیا تھا،  دو چھوٹے نابالغ لڑکے  تھے، میری مرحومہ بہن میکے کی طرف ملنے والے کچھ زیورات اپنی زندگی میں میرے پاس رکھ  دیے تھے اب جب کہ بہن کے لڑکے بالغ ہوچکے ہیں،  بہن کا شوہر بھی زندہ ہے، اس کی دو بیویاں اور بھی ہیں۔ میری بہن کے دونوں لڑکوں  نے، جو  اب بالغ ہوچکے ہیں، مجھ سے اپنی مرحومہ ماں کے زیورات کا مطالبہ  کیا ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ان  زیورات کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

عورت کو جہیز میں ملے ہوئے زیورات عورت کی ملکیت ہوتے ہیں؛ لہٰذا  صورتِ  مسئولہ میں  سائل کی بہن کو جو جہیز ملا ہے،وہ ان کی ذاتی ملکیت شمار ہوگا، اور ان کے مرنے کے بعد ان کے ورثاء میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم ہوگا، نیز جو زیوارات مرحومہ نے سائل کے پاس امانت رکھوائے تھے وہ بھی وراثت میں تقسیم ہوں گے۔

البتہ وراثت کی شرعی تقسیم کے لیے یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ مرحومہ کےوالدین حیات ہیں یا نہیں، اس کے بعد (دیگر ورثاء سمیت)بیٹوں کا بھی شرعی حصہ معلوم ہوسکے گا۔

لہٰذا  ورثاء کی مکمل وضاحت کے بعد دوبارہ سوال جمع فرمائیں۔

موسوعہ فقہیہ کوتییہ میں ہے:

"ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لايجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، و على الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنًا شرعيًّا لائقًا بهما. و إذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها....

وقال الحنفية: إذا جهز الأب ابنته من ماله دون أن يصرح أن هذا منه هبة لها أو عارية منه لها، وادعى بعد نقل الجهاز إلى دار الزوج أنه كان عارية. وادعت أنه كان تمليكا بالهبة فالقول قولها إذا كان العرف يشهد بأن هذا الجهاز المتنازع عليه يقدمه الأب لابنته هبة منه. وإن كان العرف جاريا بأن الأب يقدمه عارية فالقول قول الأب. وإن كان العرف متضاربا فالقول قول الأب إذا كان الجهاز من ماله. أما إذا كان مما قبضه من مهرها فالقول قولها؛ لأن الشراء وقع لها حيث كانت راضية بذلك، وهو بمنزلة الإذن منها."

(الموسوعة الفقهية الكويتية ،‌‌‌‌حرف الجيم،كلمة:جهاز،تملك المرأة الجهاز، ۱۶/۱۶۶،ط: دار السلاسل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں