ہماری والدہ کا ایک مکان ہے، جس میں ہم رہتے ہیں اور یہ گھر والدہ کی ملکیت ہے، ان کا انتقال ہو چکا ہے، ہم دو بھائی اور تین بہنیں ہیں، ان بہنوں میں سے دو بہنیں بیوہ ہیں اور ایک بہن طلاق یافتہ ہے اور والد صاحب حیات ہیں ۔
1. مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ شریعت کے مطابق یہ گھر کیسے تقسیم ہوگا؟
2. بڑے بھائی اور والد یہ گھر تقسیم کرنا نہیں چاہتے، اس کا مسئلہ بتائیں کہ شریعت میں کیا حکم ہے؟
3. والد صاحب اور بڑے بھائی بہنوں کو گھر میں رہنے کی اجازت بھی نہیں دیتے اور نہ ہی گھر میں آنے کی اجازت دیتے ہیں، اس بارے میں بھی شریعت کا حکم واضح فرمائیں۔
1. صورتِ مسئولہ میں والدہ کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہو گا کہ اولاً والدہ کے ذمہ اگر کوئی قرضہ ہو تو اس قرضہ کو کل ترکہ سے ادا کیا جائے گا، پھر اگر والدہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو بقیہ مال کے ایک تہائی ترکہ سے ادا کیا جائے گا، اس کے بعد کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 28 حصوں میں تقسیم کر کے شوہر کو 7 حصے، ہر ایک بیٹے کو 6 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحومہ 4 - 28
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | ||||
7 | 6 | 6 | 3 | 3 | 3 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے 25 فیصد شوہر کو، 21.428 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 10.714 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
2. والد اور بڑے بھائی کا انکار درست نہیں، تقسیم کرنا ضروری ہے۔
3. جب تک یہ مکان تقسیم نہیں ہو جاتا اس وقت تک تمام ورثاء کا اس مکان میں حصہ ہے اور ہر وارث کے لیے اپنے حصے کے بقدر اس مکان سے انتفاع کرنا جائز ہے، بہنوں کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دینا شرعاً درست نہیں۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :
"المادة (1130) إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه."
(الکتاب العاشر ، الشرکات ، الباب الثانی فی بیان القسمة ، الفصل الثالث فی بیان قسمة الجمع ، صفحه : 218 ، طبع : نور محمد کتب خانه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن