کیا کسی شخص کو اس کی والدہ کی وفات کے موقع پر زکات کی رقم میں سے تکفین و تدفین کا خرچ دیا جا سکتا ہے؟ بظاہر وہ شخص ماہانہ 35 سے 40 ہزار کی نوکری کر رہا ہے اور اس نے خود امداد کی درخواست کی ہے، صاحب نصاب ہے یا نہیں اس کا کچھ واضح نہیں ہے۔
اگربیوی کا انتقال ہوجائے اور شوہر حیات ہو، تو اصولاً کفن دفن کا خرچہ شوہر پر لازم ہے اور اگر شوہر نہیں ہے، تو مرحومہ کے اپنے مال سے کفن دفن کا انتظام کیا جائے گا اور اگر ترکہ میں اتنا مال بھی نہیں ہے، تو پھر ورثاء کے ذمے کفن دفن لازم ہے، البتہ اگر بیٹا مستحقِ زکات ہو، تو اس کو زکات کی رقم مالک بنا کردی جاسکتی ہے، جس سے وہ کفن دفن کا انتظام کرلے،زکوۃ کی رقم براہ راست تجہیز وتکفین کے خرچ میں استعمال نہیں کی جاسکتی۔
درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:
"(ومن لا مال له فكفنه على من) تجب (عليه نفقته واختلف في الزوج والأصح الوجوب عليه) كذا في الظهيرية (وإن لم يوجد) من تجب عليه نفقته (ففي بيت المال."
(كتاب الصلاة، باب الجنائز، ج:1، ص:162، ط:دارإحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144605101775
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن