بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم والد کے طرف سے قربانی کا حکم


سوال

مرحوم والد کی طرف سے پانچ بیٹے مشترکہ طور پر والد کے نام پر قربانی کرتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پانچ بیٹوں کا مشترکہ طور پر  پیسے دے کر کسی ایک بیٹے کو مالک بنا دیں یا جانور یا حصہ خرید کر کسی ایک بیٹے کو مالک بنا دیں،پھر وہ والد کے نام پر قربانی کرےتو یہ بلااختلاف جائز ہے اور والد کو قربانی کا ثواب بھی ملے گا، روایت میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دنبہ اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک  دنبہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔

 جمع الجوامع المعروف بـ (الجامع الكبير)میں ہے: 

"عن الحكم عن حنش قال: ‌ضحي ‌علي - رضي الله عنه - بكبشين، كبش عن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم، وكبش عن نفسه."

(مسانيد الصحابة، مسند على بن أبى طالب رضي الله عنه، ج:17، ص:372، ط: الأزهر الشريف، القاهرة)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"فلا تجوز الشاة والمعز إلا عن واحد، وإن كانت ‌عظيمة ‌سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحي بهما."

(‌‌كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، ج:5، ص:297، ط: رشیدية)

 فتاوی رحیمیہ میں ہے:

( سوال: ۸۶) چھ آدمیوں نے مل کر قربانی کے بڑے جانور میں اپنا اپنا واجب حصہ رکھا اور ساتویں حصہ میں سب نے شریک ہو کر آنحضرت ﷺ کے لئے نفل قربانی کی نیت کر لی تو یہ درست ہے یا نہیں؟

الجواب : "ان مات احد السبعة المشتركين فى البدنة ، وقال الورثة اذبحوا عنه وعنكم صح  عن الكل استحسانا لقصد القربة من ولو ذبحوها بلااذن الورثة لم يجزهم." (درمختار مع الشامي، ج 2، ص 322، ط: سعید)

روایت مذکورہ فقہیہ سے استحسانا جائز معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب ساتواں حصہ دار فوت ہو گیا تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو گیا اور اس حصہ کے مالک بن گئے اور انہوں نے اس ساتویں حصہ کے مالک ہونے کی حیثیت سے قربانی کی اجازت دے دی تو اس کی قربانی درست ہوگئی ، اسی طرح صورت مسئلہ میں چھ ساتھیوں نے ساتواں حصہ خرید کر حضور ﷺ کے لئے کر دیا تو درست ہونا چاہیے ، دوسرے علماء سے بھی دریافت کر لیا جائے ۔

( کتاب الاضحیۃ ،   ج:10،  ص:57، ط:  دار الاشاعت)

"اوپر جو حکم لکھا گیا ہے وہ قیاس ہے اور فتاوی رحیمیہ کی بات استحسان   ہےلہذا ان دونوں اقوال میں تعارض نہیں ہے"۔ مؤلف(از قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا،ص:168،169، ط: بیت العمار)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں