بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم والدین کی طرف سے قربانی کرنا


سوال

 کیا مرحوم والدین کی طرف سے وقف قربانی کا حصہ کیا جا سکتا ہے؟

جواب

مرحوم والدین کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے، خواہ وقف قربانی ( جس میں گوشت وصول نہیں کیا جاتا، بلکہ تقسیم کردیا جاتا ہے) کرے، یا اپنے ہی جانور میں ان کی طرف سے  قربانی کرے، کیوں کہ محض ثواب کی نیت سے مرحوم کی طرف سے کی گئی  قربانی  کا سارا گوشت صدقہ کرنا واجب نہیں،  بلکہ مرحوم کی طرف سے  قربانی کرنے والے کو اختیار  ہوتاہے کہ اگر چاہے تو سب گوشت صدقہ کردے، یا   سب گوشت  اپنے لیے رکھ لے، یا گوشت کے تین حصے کرکے ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کردے، ایک حصہ خاندان والوں میں،  اور ایک حصہ اپنے لیے رکھ لے۔

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه".

(فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳ / ۳۵۲، ط: رشدیة)

رد المحتار میں ہے:

"مَنْ ضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ يَصْنَعُ كَمَا يَصْنَعُ فِي أُضْحِيَّةِ نَفْسِهِ مِنْ التَّصَدُّقِ وَالْأَكْلِ وَالْأَجْرُ لِلْمَيِّتِ وَالْمِلْكُ لِلذَّابِحِ. قَالَ الصَّدْرُ: وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ إنْ بِأَمْرِ الْمَيِّتِ لَا يَأْكُلْ مِنْهَا وَإِلَّا يَأْكُلُ بَزَّازِيَّةٌ، وَسَيَذْكُرُهُ فِي النَّظْمِ."

( كتاب الاضحية، ٦ / ۳۲٦، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ، وَلِهَذَا لَوْ كَانَ عَلَى الذَّابِحِ وَاحِدَةٌ سَقَطَتْ عَنْهُ أُضْحِيَّتُهُ كَمَا فِي الْأَجْنَاسِ. قَالَ الشُّرُنْبُلَالِيُّ: لَكِنْ فِي سُقُوطِ الْأُضْحِيَّةَ عَنْهُ تَأَمُّلٌ اهـ. أَقُولُ: صَرَّحَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ فِي الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ بِلَا أَمْرٍ أَنَّهُ يَقَعُ عَنْ الْفَاعِلِ فَيَسْقُطُ بِهِ الْفَرْضُ عَنْهُ وَلِلْآخَرِ الثَّوَابُ فَرَاجِعْهُ."

( كتاب الأضحية، ٦ / ۳۳۵، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں