ایک عورت کا انتقال ہوا،مرحومہ کی بلوغت کے بعد ان کی زندگی میں کافی تعداد میں نمازیں بغیر کسی عذرشرعی کے فوت ہوگئی تھیں، جن کی وہ قضاء نہیں کر پائیں، مرحومہ سخت بیمار بھی تھیں،ہسپتال میں داخل بھی ہوئیں،مرحومہ نے اپنی زندگی میں ان فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی کوئی وصیت بھی نہیں کی تھی،ان کے ورثاء اپنی طرف سے ان کی نمازیوں کا فدیہ ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مرحومہ کے ورثاء اگر اپنی خوشی سے اس کی نمازوں کافدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو ادا کرسکتے ہیں،اللہ سے امید ہے اللہ اس سے ان کی قضاء نمازوں کا گناہ معاف فرمادیں، اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ یہ فدیہ میت کی فوت شدہ نمازوں کی طرف سے کافی ہوگا ،نیز فدیہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ اس کا بہترین بدلہ بھی عطا فرمائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة
(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أيبأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه...(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثةفيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، 72/2، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102219
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن