بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کے چار اور سات سالہ بیٹوں کی پرورش کا حق اور مرحوم کا والدین کی جائیداد میں حصے کا حکم


سوال

۱۔ میرے شوہر کا انتقال ہواہے، میرے دو بچے ہیں: ایک کی عمر سات سال اور دوسرے کی عمر چار سال ہے، دونوں بیٹے ہیں ،میری ساس اور سسر دونوں ضعیف ہیں ، ساس اور سسر کہتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹے کو بھول چکے ہیں تو اپنے پوتوں کو بھی بھلادیں گے، میرے دیور اور دیورانی دونوں بچے مانگ رہے ہیں ، اب پوچھنا یہ ہے کہ بچوں کی پرورش کس پر ہے ، کیوں کہ میں بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتی۔

۲۔ میرے سسر کی جائیداد میں میرا اور میرے بچوں کا کوئی حصہ یا نہیں ؟

جواب

۱۔صورتِ مسئولہ میں چار سالہ بیٹے کی پرورش کا حق شرعاً سائلہ کو حاصل ہےجب تک کہ سائلہ کسی دوسری جگہ بچے کے کسی غیر محرم سے شادی نہ کرلے یا بچے کی عمر سات سال نہ ہوجائے۔ نیز  بچے کی عمرسات سال ہوجانے کے بعد دادا لینے کا حقدار ہو گااور دوسرا بچہ جو فی الحال سات سال کا ہےاس کو دادا لینے کا حق دار ہے،البتہ اگربچوں کا دادا  بچوں کو لینے پر راضی نہ ہو توپھر بچوں کی پرورش کا حق چچا کی طرف  منتقل ہوجائے گا۔بچے ماں کی پرورش میں ہو یا چچا کی دونوں صورتوں میں  اگر بچوں کے پاس اپنا مال موجود نہ ہو تو بچوں کی پرورش کا خرچہ دادا کے ذمہ لازم ہوگا۔

۲۔سائلہ کا شوہر چوں کہ اپنے والدین کی زندگی میں وفات پاچکا ہے اس وجہ سے اس کا اپنے والدین کی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے۔البتہ سائلہ کے سسر کو چاہیے کہ وہ اپنے مرحوم بیٹے کے  بچوں کواپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ حصہ  دے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية۔

وفی الرد:(قولہ ولوجبرا)…….وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه.‘‘

(باب الحضانۃ ،ج:۳ ، ص:۵۶۶،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان۔‘‘

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الحضانۃ، ج:۱، ص:۵۴۲، ط:رشیدیہ)

الدرالمختار میں ہے:

’’أن ‌شرط ‌الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث۔‘‘

(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الفرائض، ج:۶، ص: ۷۶۹، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ولو ‌وجد ‌معها جد لأب بأن كان للفقير أم وجد لأب وأخ عصبي أو ابن أخ أو عم كانت النفقة على الجد وحده كما صرح به في الخانية. ووجه ذلك أن الجد يحجب الأخ وابنه والعم لتنزيله حينئذ منزلة الأب، وحيث تحقق تنزيله منزلة الأب صار كما لو كان الأب موجودا حقيقة، وإذا كان الأب موجودا حقيقة لا تشاركه الأم في وجوب النفقة فكذا إذا كان موجودا حكما فتجب على الجد فقط۔‘‘

(باب النفقۃ، مطلب فی نفقۃ الاصول، ج:۳، ص:۶۲۱، ط:سعید)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144306100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں