ایک جائیداد ہے جو سب سے بڑے بھائی "فضل" کی ملکیت تھی، مرحوم کا انتقال 2018 ء میں ہوا۔ مرحوم کی بیوہ، 5 بیٹیاں، 3 بھائی اور 6 بہنیں تھیں، ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ انتقال کے بعد بیوہ اور بیٹیوں نے جائیداد بیچنے کی کوشش کی ، لیکن اس کے لیے انہیں مرحوم کے بہن بھائیوں کی طرف سے پاور آف اٹارنی چاہیے تھی، اس لیے نہیں بیچ سکے۔ ایک بھائی اور ایک بہن کا انتقال فضل سے پہلے ہوچکا ہے۔ زندہ بھائی بہنوں (2 بھائی اور 5 بہنوں) نے معاہدہ کرکے پاور آف اٹارنی دی۔ معاہدہ میں یہ بات تھی کہ :
1۔ انہیں ان کا حصہ ملے گا۔
2۔ مرحوم سے پہلے انتقال کرنے والے بھائی اور بہن کا مرحوم کی جائیداد میں حصہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی اولاد کی اجازت کی ضرورت ہے۔
اب یہ پوچھنا ہے کہ : فضل سے پہلے انتقال کرنے والے بھائی اور بہن کی اولاد کے جب والدین نہیں ہیں تو کیا ان کا حصہ نہیں ہوگا؟
واضح رہے کہ وارث بننے کے لیے مورث (انتقال کرنے والے) کی موت کے وقت زندہ ہونا شرط ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں فضل کی زندگی میں فوت ہونے والے بھائی کی بیوہ اور بھائی اور بہن کی اولاد فضل کے شرعی وارث نہیں ہیں، نیز میت کے بھائی کی موجودگی میں میت کے بھائی اور بہنوں کی اولاد وارث نہیں ہوتے، لہذا مذکورہ معاہدہ شرعاً درست ہے اور اس پر عمل کرنا لازم ہے۔
"ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل".
(فتاوی شامی، 6/774، سعید)
"وللإرث شروط ثلاثة … ثانيها: تحقق حياة الوارث بعد موت المورث".
(الموسوعة الفقهية الکویتية ، 3 / 22، دار السلاسل) فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200363
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن