بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی طرف سے فدیہ اور فاتحہ خوانی کا حکم


سوال

۱)اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ نمازیں روزے وغیرہ باقی ہو تو وہ کس حساب سے دینا ہوگا اور اس رقم کا مستحق کون ہوگا؟

۲)فاتحہ خوانی کب تک جائز ہے ؟ بعض لوگ ایک سال بعد فاتحہ خوانی کرتے ہیں ۔

۳)فاتحہ خوانی میں ایک بندہ آکر کہتا ہے کہ ایک دعا کر لیتے ہیں وہ دعا کرتا ہے تو اس کے بعد دوسرا ،تیسرا ہر ایک آکر الگ الگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرواتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

۱) واضح رہے کہ روزہ اور نماز کا فدیہ یہ ہے کہ  صدقہ فطر کی مقدار یعنی پونے سیر گندم یا اس کی قیمت (جو ادائیگی کے وقت گندم کی بنے) کسی مستحق زکاۃ شخص کو فدیہ کی نیت سے دے دی جائے۔ ہر نماز اور روزہ کے بدلہ میں ایک فدیہ دینا ہوگا ،نمازوں میں وتر کو الگ نماز شمار کیا جائے گا گویا فدیہ ادا کرتے وقت ایک دن کی چھ نمازوں کا حساب کیا جائے گا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر مرحوم وصیت کر کے گئے ہیں تب تو ورثاء پر مرحوم کے مال کے ایک تہائی سے فدیہ ادا کرنا واجب ہے ورنہ ورثاء پر واجب نہیں ہے تاہم اس کے باوجود  اگر وہ اپنی صوابدید پر مرحوم کی طرف سے ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہر وارث اپنے اپنے حصے سے فدیہ ادا کرسکتا ہے اور یہ مرحوم پر احسان اور تبرع ہوگا۔

۲،۳)مرحومین کو ایصال ثواب کرنا شریعت میں پسندیدہ  اور مستحسن ہے اور روایات میں یہ بات موجود ہے کہ مرحوم کو یہ ایصال ثواب پہچنتا بھی ہے اور وہ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں البتہ شریعت نے ایصال ثواب کے لیے نہ کسی عمل کی تعیین کی ہے اور نہ کسی وقت کی تعیین کی ہے لہذا ایصال ثواب کے لئے مروجہ فاتحہ خوانی کا شریعت مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ،لہذا گھر والے جب  بھی چاہیں مرحوم کے لئے قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اذکار اور درود شریف پڑھ کر اور صدقہ  و خیرات کر کے ایصال ثواب کر سکتے ہیں ، لوگوں کو اکٹھا کرنےکی ضرورت نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمدا فوجوبها عليه بالأولى (وفدى) لزوما (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت فلو فاته عشرة أيام فقدر على خمسة فداها فقط (بوصيته من الثلث) متعلق بفدى وهذا لو له وارث وإلا فمن الكل قهستاني (وإن) لم يوص» و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار (وإن صام أو صلى عنه) الولي (لا) لحديث النسائي «لا يصوم أحد عن أحد ولا يصلي أحد عن أحد ولكن يطعم عنه وليه»

(قوله لزوما) أي فداء لازما فهو مفعول مطلق أي يلزم الولي الفداء عنه من الثلث إذا أوصى وإلا فلا يلزم بل يجوز

(کتاب الصوم ،فصل فی العوارض المبیحہ لعدم الصوم ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۲۴،ایچ ایم سعید)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ( «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد» ) متفق عليه."

(کتاب الایمان،باب العتصام بالکتاب والسنۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۲۱،دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

"قرآن مجید افضل الاذکار اور اس کی تلاوت افضل الاشغال ہے اور تلاوت قرآن مجدی فردا فردا یا اتفاقیہ اجتماع کے ساتھ کرنا جائز ہے اور اگر تعلیم قرآن مجید مقصود ہو خواہ الفاظ سکھانا مقصود یا تجوید یا معانی و مطالب قرآنیہ تو اجتماع کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں  کہ روزانہ یا دوسرے روز یا یفتہ میں ایک بار مثلا سکھانے والا لوگوں کو جمع کر کے سکھا دیا کرے جیسا کہ سلفا و خلفا تعلیم قرآن کی مجالس قائم کرنا مسلمانوں کا معمول ہے لیکن اگر تعلیم مقصود نہ ہو بلکہ محض تلاوت بقصد قربت و بہ نیت مثوبت مقصود ہے تو اس کے لیے اہتمام کرنا اور مجلس منعقد کرنا شریعت سے ثابت نہیں پھر اس کے اندار اور شرائط و قیود کا اضافہ بھی ہو تو بدعت ہوجائے گا جب کہ محض تلاوت قرآن مجید کا ثواب حاصل کرنا ہو تو اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ تنہا اپنے حضور قلب کے اوقات میں جس قدر بخشوع و دل بستگی کر سکے کر لیا کرے کہ یہی طریقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام  اور حضرات تابعین و ائمہ مجتہدین کا  طریقہ تھا "والخير كله في اتباعهم " یعنی بھلائی تمام کی تمام انہیں حضرات کے اتباع میں ہے الخ۔۔"

(الحظر و الاباحہ ج نمبر ۹ ص نمبر ۵۴،دار الاشاعت)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں