بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی جانب سے وصیت کا دعوی کرنا


سوال

میرے چچا کا انتقال ہوچکا ہے، مرحوم کے  والدین کا انتقال ان کی حیات میں ہی ہوگیا تھا۔

درپیش مسئلہ یہ  ہے کہ مرحوم کا ایک بھانجا جوکہ ان کی مرحومہ بہن کا بیٹا ہے، کہہ رہا ہے کہ میرے مرحوم ماموں ( یعنی میرے چچا ) نے مجھے وصیت کی تھی کہ انہوں نے جتنی بھی نقدی چھوڑی ہے،  میرے مرنے کے بعد اس رقم سے غریبوں ، مسکینوں  اور ضرورت مندوں کی امداد کی جائے۔

جب کہ اس کے پاس نہ ہی وصیت  کی کوئی تحریر ہے، اور نہ اس کے پاس اس وصیت پر  کوئی گواہ ہے۔

کیا از روئے شرع چچا مرحوم کی وصیت کا دعوی کرنا تسلیم کیا جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مرحوم کے جس بھانجے نے مرحوم کی جانب سے وصیت کا دعوی کیا ہے، اگر اس کے پاس وصیت کا کوئی ثبوت واقعةً موجود نہیں ہے، تو اس صورت میں مذکورہ وصیت کی تنفیذ مرحوم کے شرعی وارثین کی اجازت پر موقوف ہوگی، پس اگر وہ اسے تسلیم کرکے نافذ کرنے کی اجازت دیتے ہیں تو (مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات اور اگر ان کے ذمے قرض تھا تو اسے ادا کرنے کے بعد)   مرحوم کے (باقی)  کل ترکہ کے ایک تہائی میں وصیت نافذ کی جائے گی ، ایک تہائی سے زائد ترکہ میں وصیت اس وقت تک نافذ نہیں کی جائے گی جب تک شرعی ورثاء اس کی اجازت نہ دے دیں، پس اگر مرحوم کے شرعی ورثاء مرحوم کے بھانجے کا دعوی تسلیم نہ کریں، اور وصیت کا علم نہ ہونے پر قسم اٹھالیں تو ایسی صورت میں  مذکورہ وصیت کالعدم قرار پائے گی، تاہم اگر وہ قسم اٹھانے سے انکار کردیں، تو اس صورت میں مرحوم کے بھانجے کا وصیت کا دعوی ثابت ہوجائے گا، اور مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی سے وصیت نافذ کی جائے گی۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ" (المائدة: ١٠٦)

معارف القرآن از مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ میں ہے:

"  مسئلہ ١: میّت جس شخص کو مال سپرد کرکے اس کے متعلق کسی کو دینے دلانے کیلئے کہہ جاوے وہ وصی ہے، اور وصی ایک شخص بھی ہوسکتا ہے، اور زیادہ بھی۔

 مسئلہ ٢: وصی کا مسلمان اور عادل ہونا خواہ حالت سفر ہو یا حضر افضل ہے لازم نہیں۔

 مسئلہ ٣: نزاع میں جو امر زائد کا مثبت ہو وہ مدعی اور دوسرا مدعا علیہ کہلاتا ہے۔

 مسئلہ ٤: اوّل مدعی سے گواہ لئے جاتے ہیں، اگر موافق ضابطہ شرعی کے پیش کردے، مقدمہ وہ پاتا ہے، اور اگر پیش نہ کرسکے تو مدعا علیہ سے قسم لی جاتی ہے اور مقدمہ وہ پاتا ہے، البتہ اگر قسم سے انکار کر جائے تو پھر مدعی مقدمہ پالیتا ہے۔

 مسئلہ ٥: قسم کی تغلیظ زمان یا مکان کے ساتھ جیسا کہ آیت مذکورہ میں کی گئی ہے، حاکم کی رائے پر ہے، لازم نہیں، اس آیت سے بھی لزوم ثابت نہیں ہوتا اور دوسری آیات و روایات سے اطلاق ثابت ہے۔

 مسئلہ ٦: اگر مدعا علیہ کسی غیر کے فعل کے متعلق قسم کھاوے تو الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ مجھ کو اس فعل کی اطلاع نہیں۔

 مسئلہ ٧: اگر میراث کے مقدمہ میں وارث مدعا علیہ ہوں تو جن کو شرعاً میراث پہنچتی ہے ان پر قسم آوے گی خواہ وہ واحد ہو یا متعدد اور جو وارث نہیں ان پر قسم نہ ہوگی (بیان القرآن) "

( معارف و مسائل، ٣ / ٢٥٧ - ٢٥٨، سورہ مائدہ: آیت ١٠٦، ط: ادارة المعارف، کراچی)

الموسوعة الفقہیة الکویتیة میں ہے:

" الصورة الخامسة: وقف مال الغير.

١٨ - ذهب الحنفية والمالكية، والشافعية في القديم إلى أن الفضولي إذا وقف مال الغير توقف نفاذ هذا التصرف على إجازة المالك فإن أجازه نفذ وإن رده بطل، وقد احتجوا بالقياس ووجهه أن وقف الفضولي لمال الغير كبيعه، وبما أن بيعه موقوف فوقفه موقوف على إجازة صاحب الحق، وكذلك احتجوا بأن الولاية بالنسبة لمن يقف مال الغير شرط في النفاذ لا في الانعقاد، ومن ثم فإن وقف مال الغير ينعقد موقوفا على الإجازة ممن يملكها."

( صورة عقود الفضولي، ٣٠ / ٢٥٢، ناشر: الكويت)

و فیہا ایضا:

" الوصية للأجنبي بما زاد عن الثلث . 

٢٣- اختلف الفقهاء في الوصية بالزائد على الثلث للأجنبي على قولين :

القول الأول : إن الوصية للأجنبي في القدر الزائد على الثلث تصح وتنعقد ، ولكنها تكون موقوفة على إجازة الورثة ، فإن لم يكن له ورثة نفذت دون حاجة إلى إجازة أحد ، وهذا هو مذهب الحنفية." 

( التصرفات فيما يتعلق به حق الغير، ٣٠ / ٢٥٤، ناشر: الكويت)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."

( كتاب الدعوي، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ٦ / ٢٢٥، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں