بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی بیوہ اور بیٹیوں کو ترکہ سے محروم کرنا


سوال

زید جب فوت ہوا تو اس کے ورثاء میں اس کی بیوی، تین بیٹیاں اور ایک بھائی عمر موجود تھا، عمر نے زید کی وفات کے بعد زید کی ساری جائیدا اپنی اولاد میں تقسیم کرکے زید کی تین بیٹیوں اور زید کی بیوی کو محروم کردیا اور ساری جائیداد  اپنے بچوں کے نام پر منتقل کردی، عمر کا یہ اقدام شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟ اب زید کی بیٹیوں کی اولاد کا عمر کے بیٹوں سے اپنے حق کا مطالبہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مہربانی فرماکر شرعی لحاظ سے اس مسئلہ کا حل دلائل کی روشنی میں بتا دیجیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کے انتقال کے بعد اُس کے ترکہ میں اُس کی بیوہ، تینوں بیٹیاں اور بھائی شریک تھے، ہر ایک کو اُس کا حصہ دینا شرعی اعتبار سے ضروری تھا، اور کسی کو بھی اُس کے حصے سے محروم کرنا بڑا گناہ تھا،  اگر زید کے بھائی عمر نے زید کا تمام ترکہ خود وصول کر کے اس کو اپنے بچوں کے نام منتقل کروا دیا تو یہ سخت گناہ کا کام کیا، اب عمر کے بچوں پر لازم ہے کہ وہ زید کی بیوہ اور اس کی بیٹیوں کو يا اُن كي اولاد كو اُن کا حصہ لوٹا دیں، ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے۔

تقسیم کا درست طریقہ یہ تھا کہ زید کے ترکہ کو 72 حصوں میں تقسیم کر کے 9 حصے اس کی بیوہ کو، 16 حصے ہر ایک بیٹی کو اور 15 حصے عمر کو  ملتے، اب جتنے حصے عمر نے زائد وصول کیے یا اپنے بچوں کو دیے اس کا حساب کر کے اس کا لوٹانا ضروری ہے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

72/24

بیوہبیٹیبیٹیبیٹیبھائی
3165
916161615

یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.5 فیصد بیوہ کو، 22.22 فیصد ہر ایک بیٹی کو اور 20.83 فیصد بھائی (عمر) کو ملتا۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقد روى ابن مردويه من طريق ابن هراسة عن سفيان الثوري عن عبد الله بن محمد بن عقيل عن جابر قال: جاءت أم كجة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن لي ابنتين قد مات أبوهما وليس لهما شيء، فأنزل الله تعالى: ‌للرجال ‌نصيب ‌مما ترك الوالدان والأقربون الآية، وسيأتي هذا الحديث عند آيتي الميراث بسياق آخر، والله أعلم."

(النساء، آیت نمبر 7، جلد:2، صفحہ: 192، طبع: دار الکتب العلمیہ)

تفسیر مقاتل بن سلیمان میں ہے:

"وقوله- سبحانه-: ‌للرجال ‌نصيب ‌مما ترك الوالدان والأقربون نزلت في أوس بن مالك الأنصاري وذلك أن أوس بن مالك الأنصاري توفي وترك امرأته أم كحة الأنصارية، وترك ابنتين إحداهن صفية  وترك ابني عمه عرفطة وسويد ابني الحارث فلم يعطياها  ولا ولداها شيئا  من الميراث. وكان أهل الجاهلية لا يورثون النساء ولا الولدان الصغار شيئا ويجعلون الميراث لذوي الأسنان منهم، فانطلقت أم كحة وبناتها إلى النبي- صلى الله عليه وسلم- فقالت: إن أباهن توفي، وإن سويد بن الحارث، وعرفطة منعاهن حقهن من الميراث. فأنزل الله- عز وجل- في أم كحة وبناتها للرجال نصيب يعنى حظا  وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون يعنى حظا مما قل منه يعني من الميراث أو كثر نصيبا مفروضا."

(النساء، آیت نمبر 7، جلد:1، صفحہ: 359، طبع: دار احیاء التراث)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں