بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کی بچیوں کی پرورش و کفالت کس کے ذمہ ہے؟


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا ہے ،  جس کی بیوہ عدت مکمل کرنے کے بعد اپنی تین بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے کر میکے چلی گئی ہے، بیٹیوں کی عمر 15، 12، اور 6 سال ہے۔

مرحوم کے بھتیجوں کا دعویٰ ہے کہ مرحوم کی بیٹیوں کی دیکھ بھال ان کا حق ہے ، اور بیوہ کہہ رہی ہے کہ بیٹیوں کو پالنا میرا حق ہے، نیز ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ بیوہ ہمارے ساتھ شادی کرلے۔

اب سوال یہ ہے کہ مرحوم کی  بیٹیوں  کی دیکھ بھال،و  پرورش کا حق کس کو حاصل ہے؟

جواب

 شوہر کی وفات کے بعد والدہ اپنی بچیوں کی عمر نو سال مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھنے کی شرعا حقدار ہوتی ہے، نو سال عمر مکمل ہونے کے بعد  بچیوں کے دادا انہیں  اپنی  کفالت  و تربیت میں  رکھنے کے حق دار ہوتے ہیں، دادا نہ ہوں تو بچیوں کے چچاؤں کو کفالت و تربیت کا حق ہوتا ہے، کفالت و تربیت کا یہ حق  بچیوں کے سمجھدار ہونے تک حاصل ہوتا ہے، بچیوں کے سمجھدار ہونے کے بعد انہیں اپنی مرضی سے والدہ یا ددھیال  میں سے کسی کے بھی پاس رہنے کا اختیار ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں چھ سالہ بچی کی پرورش والدہ کے ذمہ ہوگی، جب کہ بارہ اور پندرہ سالہ بچیوں کی کفالت ان کے دادا یا  تایا وغیرہ کے ذمہ ہوگی۔

رہی بات مرحوم کی بیوہ  کے نکاح کی، تو جبرا نکاح کرانے کی اجازت نہ ہوگی،  البتہ اگر وہ شوہر کے خاندان میں سے کسی سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع)... (قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان،... وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ."

(باب الحضانة، ٤ / ١٨٤، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و بعدما استغنى الغلام و بلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع، كذا في شرح الطحاوي.

و الجارية إن كانت ثيبًا و غير مأمونة على نفسها لايخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.

وإن كانت البالغة بكرًا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأما إذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لايتخوف عليها، كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ١ / ٥٤٢ - ٥٤٣، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508101769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں