میرے والد صاحب نے اپنے آخری لمحات میں کسی ایسے شخص کا ذکر کیا جو شہر میں رہتا ہے جن کے وہ مقروض تھے۔ چوں کہ قرض دینے والا ایک بڑے شہر کا رہنے والا تھا اور قرض لگ بھگ پچاس سال سے بھی پہلے کا لیا ہوا ہے اور نہ ہی اس شخص کا پورا اتہ پتہ ہے۔ اب میں اپنے والد صاحب کی وصیت کو کیسے پورا کروں یعنی ان کا قرض کیسے چکاووں اور کس کو دوں؟
بصورتِ مسئولہ حتی الامکان تمام ممکنہ ذرائع سے پتہ لگانے کی کوشش کریں کہ قرض خواہ کون تھا، اس کا پتہ چل جائے یا اس کے ورثاء کا، تو ان کو ادا کریں ، تلاش کے باوجود بھی کوئی سراغ نہ مل سکے تو پھر اس قرض خواہ کی طرف سے قرض کے بقدر رقم صدقہ کردیں، اور بالفرض بعد میں قرض خواہ کا پتہ چل جائے تو اس کو صدقہ کی اطلاع دے دے ،اور وہ اس صدقہ کی اجازت نہ دے تو اس کی رقم اس کوواپس کرنا ہوگی۔ اس صورت میں وہ صدقہ سائل کی طرف سے ہوجائے گا۔
فتاوی عالمگیری(الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"وَنَوْعٌ آخَرُ يُعْلَمُ أَنَّ صَاحِبَهُ يَطْلُبُهُ كَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَسَائِرِ الْعُرُوضِ وَأَشْبَاهِهَا وَفِي هَذَا الْوَجْهِ لَهُ أَنْ يَأْخُذَهَا وَيَحْفَظَهَا وَيُعَرِّفَهَا حَتَّى يُوَصِّلَهَا إلَى صَاحِبِهَا ... إنْ كَانَ الْمُلْتَقِطُ مُحْتَاجًا فَلَهُ أَنْ يَصْرِفَ اللُّقَطَةَ إلَى نَفْسِهِ بَعْدَ التَّعْرِيفِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ، وَإِنْ كَانَ الْمُلْتَقِطُ غَنِيًّا لَايَصْرِفُهَا إلَى نَفْسِهِ بَلْ يَتَصَدَّقُ عَلَى أَجْنَبِيٍّ أَوْ أَبَوَيْهِ أَوْ وَلَدِهِ أَوْ زَوْجَتِهِ إذَا كَانُوا فُقَرَاءَ، كَذَا فِي الْكَافِي."
(كتاب اللقطة، ج:2، ص:290، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144207200677
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن