بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم کا اپنی زندگی میں بغیر قبضہ کے اپنی بیٹی کے نام فلیٹ کرنے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے اپنی ذاتی رقم سے شادی شدہ بیٹی کے لیے فلیٹ خریدا اور قانونی رجسٹری بھی بیٹی کے نام کروادی، لیکن بعض وجوہات کی وجہ سے فلیٹ کا مکمل اختیار اور قبضہ چابی  و کاغذات کے ساتھ بیٹی کےحوالےنہ کیا، بلکہ فلیٹ خالی حالت میں وفات تک مرحوم کے اختیار و تصرف اور قبضےمیں  رہا، وفات کے چند ماہ بعد میں نے فلیٹ کو بیٹوں کے ذریعے مرمت وغیرہ کے کام کروایا، اس کے بعد کرائے پر دے کر  اس کا کرایہ بیٹی کو دینا شروع کردیا اور بیٹی کو بتا دیا کے یہ فلیٹ اور اس کا کرایہ تمھارا اور تمھارے ورثاء کا ہے، فلیٹ کے معاملات 10 سے12 سال تک میرے بیٹے ہی دیکھتے رہے، فلیٹ کو کافی سال پہلے بیٹی اور داماد نے ذاتی طور پرفروخت کرکے حاصل شدہ رقم کو آمدن کے لیے دیگر ذرائع میں لگا دیا۔

بیان کی گئی تفصیل کے مطابق کیا فلیٹ شرعاً بیٹی ہی کی ملکیت تھایا یہ فلیٹ بالکل نئے سرے سے مرحوم والد کے ترکہ میں شمار ہوگا؟ اگر فلیٹ شرعاً مرحوم کی ملکیت تھا تو اب اس کیا حکم ہے؟ کیا بیٹی کو شرعاً ترکہ میں سے مزید  میراث ملے گی یانہیں؟ اور فلیٹ کی قیمت میں آج کی ویلیو کا اعتبار ہوگا یا جس وقت فلیٹ فروخت ہوا ہے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ نیز فروخت سے قبل کا کرایہ کا  اور فروخت کے بعد دیگر ذرائع سے حاصل شدہ نفع  کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم شوہر کا اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کے لیے فلیٹ خرید کر قانونی رجسٹری اس کے نام کرنا یہ ہبہ ہے، اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہے، چوں کہ یہاں مرحوم نے اپنی زندگی میں  بیٹی کو قبضہ وتصرف کا اختیار نہیں دیا ہے تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، مرحوم کے انتقال کے بعد یہ فلیٹ اور فلیٹ فروخت ہونے کے بعد اس کی قیمت  اور اس فلیٹ سے حاصل شدہ  کرایہ مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوکر اس کے ورثاء میں شرعی طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔

باقی بیٹی کو ترکہ میں سے مزید کچھ ملے گا یانہیں؟ اور دیگر ورثاء کو کیا ملے گا؟ اس کے لیے کچھ باتوں کی وضاحت مطلوب ہے:

1:مرحوم کے ورثاء کی تعداد؟

2:"فلیٹ فروخت ہونے کے بعد دیگر ذرائع سے حاصل شدہ نفع" کی وضاحت کہ ان ذرائع سے کیا مراد ہے؟

مذکورہ باتوں کو واضح کرکےسوال دوبارہ  لکھ کر جمع کیا جائے تاکہ سوال کا جواب مکمل طریقے سے دیاجاسکے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الھبة( بالقبض) الکامل(ولو الموھوب شاغلا لملك الواھب  لامشغولا به) والأصل أن الموھوب إن مشغولا بملك الواھب منع تمامھا، وإن شاغلا لا".

(کتاب الھبة، ج:5،ص:690-691،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"بخلاف جعلته باسمك فانه لیس بھبة".

(کتاب الھبة، ج:5،ص:689،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں