بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم بھائی کی بیوہ کا غلط دعوی کرنے کا حکم


سوال

ہم اپنے والدین کی تین اولاد ہیں، میں بڑی بیٹی ہوں اور میرے دو چھوٹے بھائی ہیں، چھوٹے بھائی کا ڈھائی سال پہلے انتقال ہوگیا، چھوٹے بھائی کی بیوہ اور دو بیٹے میرے والدین کے ساتھ ان کے مکان میں رہتے ہیں، یہ مکان والد صاحب نےاپنی کمائی سے بنایا تھا، اس مکان کی تعمیر میں میرے بھائیوں کا ایک پیسہ بھی نہیں لگا، اور میرے چھوٹے بھائی کے انتقال کے بعد ان کی گاڑی اور بینک ملازمت کے پیسے وغیرہ سب کچھ ان کی بیوہ کو دے دیا، یہ سب کچھ لینے کے باوجود بھابھی اپنے بھائی کے ساتھ مل کر والد صاحب کے مکان پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ مکان میں بھابھی کا کوئی حصہ ہے؟اگر ہے تو کتنا حصہ ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائلہ کا بیان درست ہو کہ مذکورہ مکان سائلہ کے والد نے اپنی ذاتی کمائی سے بنایا ہےاور والد صاحب حیات ہیں  تو یہ مکان انہی کا ہے ،اس میں کسی دوسرے کا حق نہیں ہے،  سائلہ کی بھابھی کا مکان  پر قبضہ کرنا یا اس میں  حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی، ج: 1، ص: 261، ط: رحمانيه)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"(" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، ج: 5، ص: 1974،ط: دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507102009

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں