بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرہونہ زمین زراعت پر دینے کا حکم


سوال

ایک شخص نے قرض کے عوض زمین رہن رکھی اور رہن رکھنے والے نے زمین کسی تیسرے شخص کو مزارعت پر  دی اور مزارعت  رکھنے والے اس زمین پر 15-20 سال تک کاشت کرتا ہے اور اس سے جو اناج اُگتا ہے  وہ خود کھاتا ہے اور گروی رکھنے والے کو بھی دیتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ گروی رکھنے والے کے لیے مذکورہ زمین کا اناج کھانا جائز نہیں ہے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس تیسرے شخص یعنی مزارعہ رکھنے والے کے لیے گروی رکھی ہوئی زمین کی فصل/اناج کاشت کرنا اور کھانا جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے؟ تو اب کیا کرے کہ وہ کھیتی بہت عرصے سے کھا چکا ہے؟ نوٹ کریں کہ مزارعہ رکھنے والا  جانتا ہے کہ یہ گروی زمین ہے اور یہ جاننے کے باوجود 15-20 سال سے اس سے فصلیں کھا رہا ہے۔

(1) مرتہن نے مذکورہ زمین راہن کی اجازت کے بغیر دی ہے۔ (2) مذکورہ زمین میں زراعت کی صورت میں بیج کسان کی طرف سے ہے۔

جواب

واضح رہے کہ مرتہن کا شیئ ِمرہون سے فائدہ اٹھانا یااس میں کسی قسم کاتصرف کرنامطلقاًناجائزہے،خواہ   راہن کی اجازت سے ہویا بغیر اجازت کے ،بہرصورت شرعاً ممنوع  ہیں  ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں    مرتہن کا مرہونہ زمین کسی تیسرے شخص کو زراعت پر دینا شرعاً جائز نہیں ،مرہونہ زمین سےپیداشدہ فصل راہن ہی کی ہوگی،  البتہ مزارع (کسان ) اپنے بیج کے بقدر لے سکتا ہے اور جتنا عرصہ اس نے مذکورہ زمین کا غلہ استعمال کیا ہے ،شرعاً اس کا راہن کو  واپس کرنا ضروری ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيره شرعا فجعل الشيء محبوسا بحق يمكن استيفاؤه من الرهن كالديون حتى لا يصح الرهن إلا بدين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فأما بدين معدوم فلا يصح؛ إذ حكمه ثبوت يد الاستيفاء، والاستيفاء يتلو الوجوب كذا في الكافي."

(کتاب الرہن ،الباب الاول فی تفسیر الرہن ،ج:5،ص:431،دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.

قلت: وهذا هو الموافق لما سيذكره المصنف في أول كتاب الرهن وقال في المنح هناك، وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي، وكان من كبار علماء سمرقند إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم."

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،فصل فی القرض ،ج:5،ص:166،سعید)

امدادالفتاوی میں ہے :

"سوال (485)دیگر یہ ہے مثلاً اسی عمرو مہاجن نے اصل مالک کو بٹائی پر نہیں دی ،کسی اور شخص کا شت کار  کو دے دی ہے وہ بھی چرالیوے یا نہ ؟

الجواب :یہاں رہن باقی ہے اور نماء رہن کا مرہون ہے ؛اس لیے مرتہن کے حصہ میں جتنا غلہ آوے گا مرہون ہونے کی وجہ سے  اس پر مرتہن کو قبضہ کا استحقاق ہے ،پھر فک رہن کے وقت اس کی واپسی راہن کی طرف واجب ہے ،پس چوں کہ مرتہن کو قبضہ کا استحقاق ہے ؛اس لیے اس صورت میں راہن کو اس مرتہن کے حصہ  میں لینا جائز نہیں ۔فقط ."

(کتاب الرہن ،ج:3،ص:461،دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں