بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومین کے لیے ایصال ثواب کی وصیت کرنا


سوال

 کیا یہ وصیت کرنا جائز ہے کہ اتنا مال مرحوم شوہر اور مرحوم والدین کی طرف سے صدقہ کردیا جائے ۔ جب کہ میں نے سنا ہے کہ شوہر اور والدین کو وصیت نہیں کرسکتے۔

جواب

واضح رہے کہ جن لوگوں کا شریعت نے میراث میں حصہ مقررکیا ہے ان لوگوں کے لیے وصیت شرعا ًمعتبر نہیں ،اورشوہراوروالدین چوں کہ شرعاً وارث ہوتےہیں اس لیے ان کے لیے وصیت کرناغیرمعتبرہے،البتہ اگر تمام عاقل بالغ ورثاء اس پر راضی ہوں تو پھر جائز ہے ۔لیکن اگرشوہراوروالدین انتقال کرگئےہوں توصدقہ کے ذریعہ ان کےلیے ایصال ثواب کی وصیت کرناجائزہے ۔

لہذاصورت مسئولہ میں  یہ وصیت کرنا کہ" اتنا مال مرحوم شوہر اور مرحوم والدین کی طرف سے صدقہ کردیا جائے "یہ وصیت جائزہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(کتاب الوصیۃ،ج:6،ص:90،دارالفکر)

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 182):

 

"ثم تصح الوصية للأجنبي بالثلث من غير إجازة الوارث، و لاتجوز بما زاد على الثلث".

فتاوی شامی میں ہے:

 

"وفي البحر: من صام أو صلي أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الاموات والاحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند اہل السنۃ والجماعة كذا في البدائع ."

 (كتاب الصلوة،باب صلاة الجنازة،مطلب فی القراءۃ للمیت واھداء ثوابها لہ ج 2 ص:243  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں