بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ بیوی کی تصاویر دیکھنے اور یاد کرنے کا حکم


سوال

کیاشوہراپنی مرحومہ بیوی کی تصاویردیکھ سکتاہے؟ جب کہ اس نے دوسری شادی کرلی ہے اور مرحومہ بیوی کویادکرسکتاہے؟

جواب

کسی شدید ضرورت کے بغیر جان دار  کی تصویر کھینچنا، بنانا، اور محفوظ رکھنا ناجائز اور حرام ہے،  اس پر حدیثِ مبارک میں بہت وعیدیں وارد ہوئیں ہیں، لہذا زندہ یا کسی مرحوم یامرحومہ  کی تصویر رکھنا ناجائز ہے، اس کو ڈیلیٹ کردینا ضروری ہے، بلکہ مرحومین کی تصویریں رکھنا اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے، اس لیےکہ گزرے ہوئے نیک لوگوں کی تصاویر اور مورتیوں سے شرک کی ابتدا  ہوئی تھی  کہ لوگ ان کی عظمت اور عقیدت میں رفتہ رفتہ ان کو پوجنے لگے تھے، اس لیے اسلام میں تصویر کشی  اور تصویر سازی کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص پرلازم ہےکہ مرحومہ بیوی کی تصاویرنہ دیکھیں،بلکہ ڈیلیٹ کردیں ۔

البتہ مرحومہ بیوی جب بھی وہ یادآئےتوان کے لیے ایصال ثواب کرلیاکریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج : 1 ص : 647/ 648 ط: سعيد)

 البحر الرائق میں ہے :

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال: قال أصحابنا وغيرهم من العلماء: ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ. فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره."

(باب مایفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ،ج:2،ص:29،دارالکتاب الإسلامی)

حاشیہ ابن عابدین میں ہے :

"وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم.

صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة."

(كتاب الصلاة ، باب صلاة الجنازة ج : 2 ص : 243 ط : سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں