بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم والد کے ایصال ثواب کی نیت سے کسی کو قربانی کے لیے پیسے دینا


سوال

 سابقہ سال 2019میں عیدالاضحی پر میری دو قربانیاں ( ایک میری اور ایک میری والدہ صاحبہ کی) اسی دوران مجھے بیوی نے کہاکہ ایک قربانی اپنے والد صاحب کو ایصال ثواب پہنچانے کے لیے بھی کرو ,  میں نے اتفاق کیا کہ ٹھیک ہے، میرا خاندان والدہ صاحبہ سمیت 6 افراد پر مشتمل ہے، اور تین قربانیاں بن رہیں تھیں۔ اسی دوران میں نے اپنے ماتحت کلرک سے پوچھا کہ آپ کا قربانی کا کیا پروگرام ہے، اس نے کہا کہ ارادہ ہے ان شاء اللّٰہ بندوبست ہو جائے گا،  یعنی قرضہ لے کر اس نے قربانی کرنا تھی۔ اس کی تنخواہ تقریباً 25000 ہزار روپے ہے، اس کا خاندان 7 افراد پر مشتمل ہے، گزراوقات انتہائی مشکل ہوتی، میں نے اپنے والد مرحوم کے قربانی والے پیسے اسے دے دئیے کہ آ پ قربانی کر لیں اس میں میری نیت یہ تھی کہ میرے والد مرحوم کے نام کی قربانی ہوجائے گی۔ اس کے بعد شک پیدا ہوا کہ آ یا میرے والد مرحوم کی قربانی ہوئی یا نہیں۔ ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر میت نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی ہوتو  ورثاء پر مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا لازم نہیں ہوتا ، البتہ اگر  کوئی عاقل بالغ شخص اپنی خوشی سے میت کے لیے قربانی کرتا ہے تو  یہ قربانی حقیقت میں قربانی کرنے والی کی طرف سے ہوتی ہے  اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔ 

صورت مسئولہ میں  اگر آپ کے والد مرحوم نے قربانی کرنے کی وصیت نہیں کی تھی  بلکہ آپ اپنی طرف سے والدمرحوم کے ایصال ثواب کے لیے  اپنی خوشی سے قربانی کرنا چاہتے تھے  اور اس کے لیے آپ نے اپنے کلرک کو قربانی کی پیسے دئیے تو اگر  اس کو بتادیا تھا کہ میرے والد صاحب کے ایصال کے لیے یہ قربانی کرلو ، یا آپ قربانی کرکے میرے والد کو ثواب بخش دو  یا نفلی قربانی کرلو اور اس کا گوشت آپ استعمال کرلو اور اس میں آپ کی نیت والد کے ایصال ثواب کی ہوتو ان تمام صورتوں  میں اس قربانی کا ثواب آپ کے والد کو پہنچ جائے گا۔

اور اگر اس شخص کو آپ نے صرف اس کی قربانی کے تعاون کے لیے پیسے دئیے تھے، اور اس نے اپنی قربانی کی اور اس کا ثواب آپ کے والد کو  نہیں بخشا تو قربانی کا ثواب اگرچہ آپ کے والد کو نہیں پہنچے گا لیکن غریب شخص کے تعاون اور صدقہ کا ثواب آپ کی طرف آپ کے والد کو پہنچ جائے گاْ۔

 فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو ضحی عن میت من مال نفسه بغیر أمر المیت جاز، وله أن یتناول منه ولایلزمه أن یتصدق به؛ لأنها لم تصر ملکًا للمیت؛ بل الذبح حصل علی ملکه، ولهذا لو کان علی الذابح أضحیة سقطت عنه". (فتاویٰ قاضي خان علی هامش الفتاویٰ الهندیة ۳؍۳۵۲ ) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں