بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحوم والدہ کا اپنے علاج کے لیے رکھا ہوا زیور ترکہ ہوگا یا والدہ کی طرف سے کارخیر میں خرچ کیا جاسکتا ہے؟


سوال

میرے والد کا 27 سال پہلے انتقال ہو گیا ہے اور اب حال میں والدہ کا بھی انتقال ہو گیا ہے۔ہم  3 بہنیں اور 1 بھائی ہیں ۔میری والدہ نے اپنا کچھ زیور میرے ذمے  چھوڑا ہے، انھوں نے اپنے  ہاتھ سے 4 پیکٹ بنائے اور کچھ اپنے  لیے الگ سے رکھا یہ کہہ کر کہ وہ میری بیماری کے لیے  ہے، جو  کہ کام میں نہیں آیا۔ اس زیور کا صرف امی نے مجھے  ہی بتایا اور باقی 4 حصوں کا سب کو بتایا تھا ۔میری  2 بہنیں ملک سے باہر  ہیں اور بھائی کے تعلقات امی سے اچھے نہیں تھے۔ میں نے امی کے حصہ والا زیور  کی بات اپنی چھوٹی بہن کو بتائی ہے تو اس نے کہا کہ امی کی کنواں کھدوانے کی نیت تھی۔ اس لیے امی کا حصہ کار خیر میں کر دیتے ہیں ۔ زیور کی تقسیم میری ذمہ داری ہے۔

کیا میں امی کے حصہ والا زیور چاروں میں تقسیم کر دوں؟  یا وہ حصہ کار خیر میں دے دوں؟ اگر کار خیر میں دے رہی ہوں تو کیا میں باقی بہن بھائیوں کے علم میں لا کے ان کو دکھا کر دوں؟ اور اگر تمام زیور کو شرعی طور پر تقسیم کر نا ہو تو وہ کسی طرح کیا جائےگا؟ کیازیور  دکان پہ جا کر قیمت لگوانی ہو گی؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  آپ کی والدہ نے جو زیور اپنی بیماری کے علاج کے لیے رکھا تھا اور وہ ان کی زندگی میں علاج میں خرچ نہیں ہوا تو ان کے انتقال کے بعد دیگر زیورات اور جائیداد  وغیرہ کی طرح یہ بھی والدہ کا ترکہ شمار ہوگا، جو سب ورثاء میں  ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہوگا، تمام عاقل بالغ ورثاء کی رضامندی کے بغیر اس کو کارخیر میں خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا۔

ہاں اگر سب ورثاء عاقل بالغ ہیں اور  اپنی رضامندی سے اس زیور کو والدہ کے ایصالِ ثواب کے لیے خرچ کرنا چاہتے ہیں تو یہ جائز ہے اور یہ والدہ کے  ساتھ  تبرع اور احسان ہوگا، اور اگر ورثاء میں کوئی نابالغ ہے یا کوئی وارث راضی نہیں ہے تو پھر  اس زیور کو شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا  لازم ہوگا، اور تقسیم کے بعد کوئی وارث یا چند وارث مل کر  اپنے حصوں میں سے   والدہ کے ایصالِ ثواب کے لیے  کار خیر  میں صرف کرنا (مثلًا کنواں کھدوانا)  چاہتے ہیں تو یہ جائز ہے۔

باقی مرحوم والدہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ   مرحومہ  کے ترکہ میں سے  ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، اگر ان کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو تو  اسے  کل ترکہ میں سے ادا کرنے بعد،   اگر  انہوں نے کوئی  جائز   وصیت کی ہو تو   اسے  بقیہ ترکے کے ایک  تہائی  حصے میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی  کل منقولہ وغیرمنقولہ  ترکہ کو  5 حصوں میں تقسیم کرکے  دو حصے  مرحومہ کے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔

یعنی مثلًا  روپے میں سے  40 روپے بیٹے کو اور  20،20 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

نیز زیور  کی قیمت  لگا کر یہ تقسیم کی جاسکتی ہے، اگر زیور کا وزن پہلے سے معلوم و متعین ہے تو زیور دکان پر لے جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر وزن معلوم نہیں ہے تو کسی تجربہ کار سنار سے اس کا وزن معلوم کرواکر وزن کے اعتبار سے یا اس کی موجودہ قیمت لگاکر اس کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، ہاں یہ کیا جاسکتا ہے کہ کوئی ایک وارث بقیہ ورثاء کے حصے میں آنے والی سونے کی مقدار کو خرید لے، اور پھر اسے کسی کارِ خیر میں لگادے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں